Skip to main content
ZikreKitab Urdu Podcast ذکر کتاب اردوپاڈکاسٹ

ZikreKitab Urdu Podcast ذکر کتاب اردوپاڈکاسٹ

By SMH Farooqui Academy

" ذکر کتاب"شاہ محی الحق فاروقی اکیڈمی کے قائم کیئے ہوئے چینل ہیں جسے آپ یو ٹیوب کے ساتھ ساتھ اسپاٹی فائی پوڈ کاسٹ اور گوگل پوڈ کاسٹ پر بھی سن سکتے ہیں ان چینلوں کا مقصد اردو زبان اور اردو علم و ادب کو فروغ دینا ہے ان چینلوں پر آنے والی پوسٹوں کے بارے میں معلومات آپ کو ، فیس بک ٹویٹر اور انسٹاگرام پر مل سکتی ہیں جہاں آپ اسے ZikreKitab کے نام سے تلاش کر کے فالو، سبسکرائب یا شیئر کر سکتے ہیں جس سے آپ اردو علم و ادب کے فروغ کے لیئے اکیڈمی کے معاونین میں شامل ہو جائیں گے اور ہم آپ کے ساتھ مل کر کام کرسکیں گے

#zikrekitab #urdupodcast #urduadab #urduongooglepodcast #urduonspotify
Available on
Google Podcasts Logo
Pocket Casts Logo
RadioPublic Logo
Spotify Logo
Currently playing episode

نوز شریف کی تصویر - سینے نال لگ جا

ZikreKitab Urdu Podcast ذکر کتاب اردوپاڈکاسٹJan 07, 2023

00:00
13:05
جہنم میں آگ نہیں ہوتی

جہنم میں آگ نہیں ہوتی

جہنم میں تو آگ نہیں ہوتی ہے روایتوں میں آتا ہے کہ ایک نوجوان جب کافی عرصہ جنت میں رہ لیا تو اس نے خواہش ظاہر کی کہ اسے جہنم ۔بھی ایک نظر دکھا دی جائے۔ اسے بہت سمجھایا گیا کہ تم جنت میں آرام سے بیٹھے ہوئے جہنم دیکھ کر کیا کرو گے مگر وہ مصر رہا تو اجازت دے دی گئی کہ اس کو جہنم بھی دکھا دی جائے۔ وہ شخص جہنم گیا ہر طرف گھوم پھر کر جہنم دیکھی جب واپس آیا تو اس سے پوچھا گیا کہ تو نے کیا دیکھا اس نے کہا جہنمیوں پر عذاب مگر مجھے حیرت ہوئی دیکھ کر کہ میں نے جہنم میں کہیں آگ نہیں دیکھی اسے بتایا گیا کہ ہاں تم نے صحیح دیکھا جہنم میں آگ بالکل نہیں ہوتی ہے جہنم میں آگ کیوں نہیں ہوتی ہے؟ اور اگر آگ نہیں ہوتی ہے تو جہنمیوں کو آگ کا عذاب کیسے ملتا ہے ؟ اس کا جواب آپ کو اس تین منٹ کی اس ویڈیو میں دیکھیں - اگر آپ "Soft Skill" یا "جینے کے قرینے " کو سیکھنا چاہتے ہیں تو علم و ہنر کے اس چینل کو سبسکرایب کریں جہاں آپ کو ان موضوعات پر ڈیڑھ ڈیڑھ منٹ کے کئی کلپس بھی دیکھنے کو ملیں گئ جن میں آپ کو یقینی دلچسپی ہو گی سبسکرائب کرنے کالنک نیچے ہے https://youtube.com/@ilmohunar4884?sub_confirmation=1

Aug 24, 202302:52
چچاچھکن نوچندی دیکھنے چلے

چچاچھکن نوچندی دیکھنے چلے

https://youtu.be/8yGJaLAd2LA ظنز و مزاح پر مبنی امتیاز علی تاج کی خوبصورت تحریر "چچاچھکن نوچندی دیکھنے چلے" اس قسم کی دیگر خوبصورت تحریروں کتابوں پر تبصرے اور کتابوں سے اقتباسات سننے کے لیئۓ نیچے دیئے گئے لنک کو پریس کریں

اس سے قبل آپ ذکر کتاب پر امتیاز علی تاج صاحب کی ایک اور تحریر چچاچھکن نے تصویر ٹانگی آپ سن چکے ہیں

اس کا لنک یہ ہیں

https://youtu.be/VfEa_ewW1CA

چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے اس لنک کو پریس کریں

http://YouTube.com/c/zikrekitab?sub_confirmation=1

Aug 24, 202314:48
فیض احمد فیض قسط نمبر 3

فیض احمد فیض قسط نمبر 3

https://youtu.be/VJL2wJCz6T4 فیض احمد فیض کتابوں کے آئنے میں

فیض احمد فیض قسط نمبر 1

https://youtu.be/979VHhaC1uQ

فیض احمد فیض قسط نمبر 2

https://youtu.be/DlOTHFUiItc


کتابیں جو میں نے پڑھیں کے سلسلے میں محمود احمد صاحب جائزہ لے رہے ہیں مختلف ادیبوں شاعروں اور سیاست دانوں کی شخصیت کا ان کتابوں کی روشنی میں جو ان لوگوں نے لکھیں یا ان کے بارے میں لکھی گئی ہیں محمود صاحب اس سے پہلے شیرباز خان مزاری صاحب اور شورش کاشمیری کی شخصیتوں کا جائزہ لے چکے ہیں کتابون کہ روشنی میں انہوں نے تیسری جس شخصیت جق چنا ہے ان کا نام فیض احمد۔ فیض ہے آپ جائزہ لے رہے ہیں فیض کی زندگی کا ان کی اور ان کے بارے میں لکھی ہوئی کتابوں کی روشنی میں ۔ اس سلسلے میں آپ پہلی قسط سن چکے ہیں

آج یہ ا جس میں محمود صاحب نے فیض صاحب کی کتاب دست تہہ سنگ کے حوالے سے بتایا کہ کس طرح وہ کالج کی زندگی ہی سب ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہو گئے تھے محمود صاحب نے بتایا تھا کہ ایک وقت تھا کہ فیض صاحب گانے والیوں میں اتنے مقبول تھے کہ اکثر ان سے مشاعروں میں درخواست ہوتی تھی کہ آپ اپنی فلاں گانے والی کی فلاں غزل سنا دیں پہلی قسط میں محمود صاحب نے فیض صاحب کے شادی سے قبل اور شادی کے بعد کے رومان اور معاشقوں کا بھی ذکر کیا تھا

دوسری قسط میں فیض صاحب کے معاشقوں اور رومان کے تذکرے کو ختم کرتے ہوئے محمود صاحب نے بتایا کہ فیض صاحب رومان پسند ضرور تھے مگر۔ بد چلن نہیں ۔ محمودصاحب نے بتایا کہ تقسیم ہند سے قبل ترقی پسند تحریک نے برطانوی سامراج کا اس لیئے ساتھ دیا کہ وہ روس کا اتحادی تھا بڑی تعداد میں ترقی پسند شعرا اور ادیب برطانوی فوج اور حکومت میں۔ شامل ہوئے جس میں فیض صاحب بھی تھے ۔ 1951 میں جب میجر جنرل اکبر خان کی سربراہی میں پنڈی سازش کیس کا انکشاف ہواتو اس میں ہندوستان نے کیمونسٹ پارٹی کے بھیجے ہوئے منذوب سجاد ظہیر کے ساتھ ساتھ فیض صاحب بھی سازش کے شریک کار کے طور پر گرفتار ہوئے تھے پنڈی سازش کیس میں جیل میں گزرے فیض صاحب کے دنوں کے بارے میں۔ ان کی شریک جرم ظفراللہ پوشی کی کتاب زندگی زنداں دلی کا نام ہے کا محمود صاحب نے ذکر کیا پنڈی سازش کیس کے تذکرے کے بعد محمود صاحب نے اس قسط میں جائزہ لیا فیض صاحب کہ صحافیانہ زندگی کا جس کا آغاز ہوا تھا پاکستان ٹائمز سے پھر محمود ہارون نے جب ڈان گروپ کے اخبارحریت کی ادارت انہیں دی تو فیض۔ صاحب نے اسے بائیں بازو کا اخبار ترقی پسند صحافیوں کو لا کر اسے بائیں بازو کا اخبار بنانے کی کوشش کی جو ناکام ہو گئی ۔فیض صاحب۔ محفلوں میں بہت کم گو تھے اور کئی کئی گھنٹوں میں ایک جملہ بھی نہیں بولتے تھے محمود صاحب نے اس قسط میں۔ فیض صاحب کے بارے میں حمید نسیم ، خوشونت سنگھ اور صبیح محسن کہ کتابوں کا حوالہ دیا اقتباسات سنائے اور ان کی کم گوئی کے کئی قصے سنائے


آج سلسلےکی یہ تیسری قسط ہیں اس میں محمود صاحب نے فیض احمد فیض کی شخصیت کا جائزہ لیا ہےان کے ہم عصر ادیبوں اور شاعروں کی تحریروں کی روشنی میں جن لوگوں کی تحریروں کا ذکر کیا ان میں آغا ناصر صاحب مالک رام، جوش ملیح آبادی وغیرہ شامل ہیں ۔ ان اقتباسات کو سن کر اندازہ ہوتا کہ فیض صاحب کتنےنرم دل اور ٹھنڈے مزاج کے آدمی تھے اور جن لوگوں کے فیض صاحب سے تیس تیس سال پرانے تعلقات تھے ان کا بھی یہ کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی بھی فیض صاحب کو زندگی میں تلخ کلامی کرتے نہیں سنا تھا۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ فیض صاحب میں بہت تحمل تھا وہ خود پر تنقید سن کر کبھی طیش میں نہیں آتے تھے ایک بار کسی اخبار میں ان کے خلاف مہم چل رہی تھی کسی سے فیض صاحب سے کہا کہ آپ اس اخبار کو قانونی نوٹس دیں مگر فیض صاحب نے یہ کہا کر ٹال دیا کہ اگر میری وجہ سے ان کا اخبار بک جاتا ہے تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا

آئیے سنتے ہیں تیسرا حصہ


یو ٹیوب چینل

ذکر کتاب


http://YouTube.com/c/zikrekitab?sub_confirmation=1


علم ہو ہنر

https://youtube.com/@ilmohunar4884?sub_confirmation=1

پس منظر

https://youtube.com/@passmanzar.786?sub_confirmation=1


اسپاٹی فائی اردو پوڈ کاسٹ


https://podcasters.spotify.com/pod/show/smh-farooqui-academy/episodes/ep-e24tfrr

Aug 23, 202313:13
غیر مسلم شاعر اور ادیب

غیر مسلم شاعر اور ادیب

youtu.be/3DiXTbARfjo
ہندستان کو نام مسلمانوں نے دیا اس خطے کو فتح کرنے کے بعد ورنہ اس سے قبل دنیا بھر کے نقشوں میں۔ اس علاقے کا نام Indike” or “Indica” تھا جو دوسری صدی عیسوی میں یونانی جغرافیہ دان Claudius Ptolemy نے دیا تھا قدیم تاریخ میں اس علاقے کی شناخت دریائے سندھ کے کنارے ہزاروں سال پرانی تہذیب تھی جو سنسکرت میں۔ Sindho کہلاتی تھی لہجوں میں فرق کے باعث اسے کوریا چین عرب اور فارسی زبان بولنے والے جغرافیہ دانوں نے Sindho سرزمین کو Indo یا Yindo کہنا شروع کیا جو انڈیا بنا ۔
دریائے گنگا کے ساتھ جو قدیم شہنشاہیت تھی وہاں کے شہنشاہ دار رادھا کے بیٹے بھارتا کے نام سے اس علاقے کا نام تاریخی کتابوں اور مذھبی حکایتوں میں بھارت پڑگیا ۔
ہندوستان تاریخی طور بہت اس علاقے کا نام اس وقت پڑا جب ایرانی مسلمان فاتحین نے یہاں ہندوؤں کہ اکثریت دیکھ کر اسے فارسی کا نام دیا ہندو استان یعنی ہندوؤں کے رہنے کی جگہ قرار دیا
ہندوستان میں۔ یوں تو سنسکرت بنگلہ تامل پنجابی سرائکی پشتو پوٹوھاری کشمیری سمیت بسیوں زبانیں بولی جاتی تھیں اور مسلمانوں کی آمد کے ساتھ اس بولی کے ذخیرہ الفاظ میں عربی فارسی ترکی سمیت کئی دیگر زبانوں اور بولیوں کے الفاظ کا اضافہ ہوگیا مسلمان حکمرانوں نے فارسی کو سرکاری زبان قرار دے کر ترقی دی لیکن اس خطے میں اردو نام کی کوئی زبان کبھی بھی نہیں تھی مگر مسئلہ یہ تھا کہ گلی کوچوں میں۔ بولی اور سمجھی جانے والی یہ ہندوستانی بولی رابطے کی واحد زبان تھی ۔جو مسلمان ہندوستان سے فاتحین کے ساتھ عرب افریقہ ایران اور افغانستان سے مختلف ادوار اور صدیوں میں آئے ان کی مکمل تعداد ڈھائی لاکھ کے قریب تھیں پھر مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہوا مقامی لوگوں کے قبول اسلام سے اور مسلمانوں کی افزائش نسل سے۔
مقامی اور بیرونی ممالک سے اآنے والے سب کے سب ہندوستان میں ہندوستانی ہی بولتے تھے ان میں سے کسی کی مادری زبان اردو نہیں تھی ہندوستانی زبان کے ساتھ۔ دو بڑے مسئلے تھے ایک نام کا اور ایک رسم الخط کا مسلمان اڑ گئے کہ یہ تو مسلمانوں کی زبان ہے اس کا نام ہندوستانی ہو ہی نہیں سکتا اس لیئے اردو رکھ دیجیے سید سلیمان ندوی سمیت کئی مسلمان علما نے سمجھایا بھی زبان کا نام علاقے کے نام سے پڑتا ہے اگر چین کہ زبان چینی ترکوں کی ترکی جرمنوں کی جرمن ہے، جاپانیوں کی جاپانی ہے تو کوئی پہاڑ نہیں ٹوٹ پڑے گا اگر ہندوستان کی زبان کا نام ہندوستانی رکھا جائے مگر مسلمانوں نے اسے دین ایمان کا مسئلہ بنا لیا کہ ہندوستان میں بولی جانے والی نام کو ہندوستانی نہیں کہا جائے۔ یعنی بھارت یا انڈیا پر قبضہ کر کے اس کا نام ہندوستان خود رکھ دیا مگر ہندوستان میں بولی جانے والی زبان کو ہندوستانی زبان کہنے سے انکار کردیا۔ ( گڑ کھائیں گلگلوں سے پرہیز )

دوسرا بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ہندوستانی زبان کا کوئی رسم الخط نہیں تھا اسے سنسکرت جاننے والوں نے اسے دیوناگری رسم الخط میں لکھنے پر زور دیا اور مسلمانوں نے اسے فارسی رسم الخط میں ۔ گاندھی جی نے بڑی معقول تجویز دی کہ اسے دونوں لکھاوٹ میں لکھو ہندی لکھاوٹ میں بھی اور فارسی لکھاوٹ میں بھی مگر مسلمان اپنی بات پر اڑ گئے حالانکہ اس وقت غیر مسلموں کی بڑی تعداد فارسی لکھاوٹ میں ہندوستان میں ہندوستانی لکھنا پڑھنا جانتی تھی اور اگر گاندھی جی کی یہ بات مان لی جاتی تو اردو ادب میں غیر مسلموں کی طرف سے فارسی لکھاوٹ میں لکھے گئے شاعری اور ادب میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا۔ یاد رہے کہ گاندھی جی خود بھی فارسی لکھاوٹ میں ہندوستانی زبان لکھتے تھے اور ان کے کم از کم تین خطوط موجود ہیں جو انہوں نے اپنی ہاتھ سے فارسی لکھاوٹ میں لکھے۔
مسلمانوں کی اس ضد کا نتیجہ یہ نکلا کہ رفتہ رفتہ غیر مسلموں نے بھی فارسی لکھاوٹ میں۔ ہندوستانی زبان لکھنی بند کردی
انٹرنیٹ پر ایک مضمون موجود ہے جو جھولے لال نام سے کسی مصنف نے تحریر کیا وہ مضمون اور اس میں دیے گئے 31 شعرا کا تعارف اور کلام اس ویڈیو میں موجود تھے،طوالت کے پیش نظر اس میں ٹائم اسٹمپ لگا دیا گیا ہے آپ جس لنک پر پریس کر یں گے وہاں موجود مطلوبہ شاعر کا تعارف و کلام سن سکتے ہیں۔
00:00
-Timestamps-
5:00 تعارف
11:34 ابھے راج سنگھ شاد
12:33 آزاد گلاٹی
13:33 بہاری لال بہار
14:13 بی۔ کے بھاردواج قمر
15:08 پرکاش ناتھ پرویز
16:14 دھرم پال عاقل
17:20 ڈی کمار
18:08 راج نارائن راز
19:08 راجندر ناتھ رہبر
20:17 راجیش کمار اوج
21:06 ست نام سنگھ قمار
22:07 سریش چند شوق
22:59 سریندر پنڈت سوز
23:54 سلکشنا انجم
24:29 شباب للت
25:17 کرشن بہاری نور
25:56 کرشن کمار طور
26:51 کھیم راج گپت ساغر
27:32 کنورل نور پوری
28:25 منوہر شرما ساغر پالم پوری
29:23 مہندر پرتاب چاند
30:05 ہربھگوان شاد
Aug 19, 202331:57
11 اگست1947 قائداعظم کی تقریر

11 اگست1947 قائداعظم کی تقریر

https://youtu.be/irksb6Fmoc0 پوری وڈیو دیکھنے کے لیے اوپر دیے گئے لنک پر پریس کریں پاکستان کا خواب کیا تھا ؟ اسلامی ریاست یا مسلم لیگی ریاست کا قیام اس بات کا فیصلہ آج تک نہیں ہو پایا ہے کہ پاکستان کو اسلامی ریاست بننا تھا یا مسلم لیگی ریاست ۔ قاید اعظم نے اگست 1947 میں تین بہت اہم تقاریر کی تھیں پہلے 11 اگست کی تقریر جو آج تک متنازعہ ہے کہ کیا اس میں تحریف کر کے سنسر کی کوشش کی گئی تھی یا قاید کا خواب ایک سیکولر ریاست کے بنانے کا تھا دوسری اہم تقریر قاید اعظم نے 13 اگست کو وائسرائے کے عشائیے میں شاہ برطانیہ کا جام صحت تجویز کرتے ہوئے کی تھی اور تیسری تقریر دستور ساز اسمبلی میں بطور گورنر جنرل حلف اٹھاتے ہوئے کی تھی ۔اس میں قاید نے دستور پاکستان اور تاج برطانیہ سے دونوں سے بیک وقت وفاداری کا حلف اٹھایا تھا ۔ بدقسمتی سے دستور بنانے میں نو سال کی تاخیر کے باعث پاکستان کا اقتدار اعلی 23 مارچ 1956. تک تاج برطانیہ کے پاس ہی رہا اور جناح صاحب کے انتقال کے بعد بھی ایک گورنر جنرل کو برطانیہ کے بادشاہ نے دو کو برطانیہ کہ ملکہ نے تقرر کیا وہ بھی ان سے تاج برطانیہ سے وفاداری کا حلف لینے کے بعد ۔ تاج برطانیہ کے نمائندے اور وفادار یہ گورنر جنرل اس قدر طاقت ور تھے کہ ایک گورنر جنرل نے پوری دستور ساز اسمبلی کو صرف اس لیئے برطرف کر دیا کہ اس کے مجوزہ دستور سے اس کے عہدے کی اہمیت اور طاقت کم ہو رہی تھی۔ پس منظر نے ان تینوں اہم تقاریر کا ٹرانسکرپٹ سرکاری ریکارڈ سے نکال کر کمپوٹر کی مدد سے اسے صوتی تقریر میں ڈھال دیا ہے تاکہ وہ الفاظ لوگوں تک پہنچ سکیں جو قاید نے کہے تھے ان تقاریر سے فیصلہ کرنا آپ لوگوں کا کام ہے کہ خواب ایک اسلامی ریاست بنانے کا تھا یا مسلم لیگی ریاست بنانے کا آج قاید کی تقاریر کے سلسلے میں یہ پہلی قسط ہے اگلی قسطوں میں آپ 13 اگست اور 14 اگست کی تقاریر سنیں گے اور ان تقاریر کے ساتھ ساتھ گورنر جنرل کے حلف کا پس منظر بھی سنیں گے اور اس کے مضمرات کا جائزہ لیں گے

Aug 16, 202308:29
فیض احمد فیض قسط نمبر 2

فیض احمد فیض قسط نمبر 2

فیض احمد فیض کتابوں کے آئنے میں


کتابیں جو میں نے پڑھیں کے سلسلے میں محمود احمد صاحب جائزہ لے رہے ہیں مختلف ادیبوں شاعروں اور سیاست دانوں کی شخصیت کا ان کتابوں کی روشنی میں جو ان لوگوں نے لکھیں یا ان کے بارے میں لکھی گئی ہیں محمود صاحب اس سے پہلے شیرباز خان مزاری صاحب اور شورش کاشمیری کی شخصیتوں کا جائزہ لے چکے ہیں کتابون کہ روشنی میں انہوں نے تیسری جس شخصیت جق چنا ہے ان کا نام فیض احمد۔ فیض ہے آپ جائزہ لے رہے ہیں فیض کی زندگی کا ان کی اور ان کے بارے میں لکھی ہوئی کتابوں کی روشنی میں ۔ اس سلسلے میں آپ پہلی قسط سن چکے ہیں

آج یہ ا جس میں محمود صاحب نے فیض صاحب کی کتاب دست تہہ سنگ کے حوالے سے بتایا کہ کس طرح وہ کالج کی زندگی ہی سب ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہو گئے تھے محمود صاحب نے بتایا تھا کہ ایک وقت تھا کہ فیض صاحب گانے والیوں میں اتنے مقبول تھے کہ اکثر ان سے مشاعروں میں درخواست ہوتی تھی کہ آپ اپنی فلاں گانے والی کی فلاں غزل سنا دیں پہلی قسط میں محمود صاحب نے فیض صاحب کے شادی سے قبل اور شادی کے بعد کے رومان اور معاشقوں کا بھی ذکر کیا تھا


آج یہ اس سلسلے کی دوسری قسط ہے

جس میں فیض صاحب کے معاشقوں اور رومان کے تذکرے کو ختم کرتے ہوئے محمود صاحب نے بتایا کہ فیض صاحب رومان پسند ضرور تھے مگر۔ بد چلن نہیں ۔۔ آج دوسری قسط میں۔ محمودصاحب نے بتایا کہ تقسیم ہند سے قبل ترقی پسند تحریک نے برطانوی سامراج کا اس لیئے ساتھ دیا کہ وہ روس کا اتحادی تھا بڑی تعداد میں ترقی پسند شعرا اور ادیب برطانوی فوج اور حکومت میں۔ شامل ہوئے جس میں فیض صاحب بھی تھے ۔ 1951 میں جب میجر جنرل اکبر خان کی سربراہی میں پنڈی سازش کیس کا انکشاف ہواتو اس میں ہندوستان نے کیمونسٹ پارٹی کے بھیجے ہوئے منذوب سجاد ظہیر کے ساتھ ساتھ فیض صاحب بھی سازش کے شریک کار کے طور پر گرفتار ہوئے تھے پنڈی سازش کیس میں جیل میں گزرے فیض صاحب کے دنوں کے بارے میں۔ ان کی شریک جرم ظفراللہ پوشی کی کتاب زندگی زنداں دلی کا نام ہے کا محمود صاحب نے ذکر کیا پنڈی سازش کیس کے تذکرے کے بعد محمود صاحب نے اس قسط میں جائزہ لیا فیض صاحب کہ صحافیانہ زندگی کا جس کا آغاز ہوا تھا پاکستان ٹائمز سے پھر محمود ہارون نے جب ڈان گروپ کے اخبارحریت کی ادارت انہیں دی تو فیض۔ صاحب نے اسے بائیں بازو کا اخبار ترقی پسند صحافیوں کو لا کر اسے بائیں بازو کا اخبار بنانے کی کوشش کی جو ناکام ہو گئی ۔فیض صاحب۔ محفلوں میں بہت کم گو تھے اور کئی کئی گھنٹوں میں ایک جملہ بھی نہیں بولتے تھے محمود صاحب نے اس قسط میں۔ فیض صاحب کے بارے میں حمید نسیم ، خوشونت سنگھ اور صبیح محسن کہ کتابوں کا حوالہ دیا اقتباسات سنائے اور ان کی کم گوئی کے کئی قصے سنائے

Aug 15, 202316:16
ناکام لوگوں سے گفتگو

ناکام لوگوں سے گفتگو

علم و ہنر کے سلسلے جینے کے قرینے یا Soft skill میں آج گفتگو کو موضوع ہے ناکام لوگوں سے بات کر نے کا فن ۔ 17 منٹ کی اس گفتگو کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اگر آپ کو وقتی ناکامی یا مایوسی کا سامنے کرے تب بھی ان لوگوں سے دور رہیں جو عملی زندگی میں ناکام رہے مگر وہ اپنی ہمدردی سے آپ کو مزید مایوس کرنے کے لیے آپ کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ہیں ایسے لوگوں سے کیسے جان چھڑائی جائے اس ویڈیو کا موضوع یہی ہے کہ بات کرنے کا فن سیکھیں اور بدمزگی پیدا کیئے بغیر صرف موضوع بدل کر انہیں گفتگو کرنے سے کیسے روکا جائے اور ان لوگوں کے اصل مقاصد کو کیسے ناکام بنایا جائے دوسرا اہم موضوع اس ویڈیو کا یہ ہے کہ کسی شخص نے آپ سے کھلم کھلا زیادتی کی ہے آپ پر ظلم کیا ہے تو نہ اس سے انتقام لینے کی کوشش کریں اور نہ خود پر ظلم کی داستان سنا کر لوگوں کے ہمدردی کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کریں آپ کو خوش ہونا چاہیے کہ روز قیامت یا ظالم کی نیکیاں مظلوم کو دے کر ورنہ مظلوم کے گناہ ظالم کے نامہ اعمال میں منتقل کر کے مظلوم کے ساتھ انصاف ہو گا ۔ اگر آپ نے اپنی اس دنیا میں اپنی عدالت خود لگا لی خود مدعی خود گواہ اور خود منصب بن گئے تو فیصلہ آپ نے سنایا اور لوگوں تک مجرم کو سزاوار ٹھہرایا پھر آپ اللہ کی عدالت میں انصاف کا چیز کا مانگیں گے ایک جرم پر دو بار تو کسی کو سزا ملے گی نہیں

Aug 11, 202316:28
اونٹ نے زبان اندر کھینچ لی اور لومڑی بھوکی رہ گئی

اونٹ نے زبان اندر کھینچ لی اور لومڑی بھوکی رہ گئی

پیش خدمت ہے "کالم شاہ محی الحق فاروقی کے" میں ان کا کالم "اونٹ نے زبان اندر کھینچ لی اور بوڑی بھوکی رہ گئی" یہ کالم 20 اکتوبر 1997 کو شائع ہوا تھا چینل کا لنک https://youtube.com/@user-uh5ry5sk6l?sub_confirmation=1 تمام کالموں کی پلے لسٹ کا لنک https://studio.youtube.com/playlist/PLW8_69-eTJUvw4EB-GZ_tgDo59wI7dOL2/edit

Aug 10, 202309:26
فیض احمد فیض قسط نمبر 1

فیض احمد فیض قسط نمبر 1

فیض احمد فیض کتابوں کے آئنے میں کتابیں جو میں نے پڑھیں کے سلسلے میں محمود احمد صاحب جائزہ لے رہے ہیں مختلف ادیبوں شاعروں اور سیاست دانوں کی شخصیت کا ان کتابوں کی روشنی میں جو ان لوگوں نے لکھیں یا ان کے بارے میں لکھی گئی ہیں محمود صاحب پہلے شیرباز خان مزاری صاحب اور شورش کاشمیری کی شخصیت کا ۔ اب وہ جائزہ لے رہے ہیں فیض احمد فیض کی زندگی کا ان کے فن کا اور ان کے کردار کے کئی مخفی پہلوؤں کا جس کا تذکرہ لوگوں نے اپنی کتابوں میں کیا ہے آج یہ اس سلسلے کی پہلی قسط ہے جس میں محمود صاحب نے فیض صاحب کی کتاب دست تہہ سنگ کے حوالے سے بتایا کہ کس طرح وہ کالج کی زندگی ہی سب ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہو گئے تھے محمود صاحب نے بتایا کہ فیض صاحب گانے والیوں میں اتنے مقبول تھے کہ اکثر ان سے مشاعروں میں درخواست ہوتی تھی کہ آپ اپنی فلاں گانے والی کی فلاں غزل سنا دیں ۔ اس قسط میں محمود صاحب نے فیض صاحب کے شادی سے قبل اور شادی کے بعد کے رومان اور معاشقوں کا بھی ذکر کیا ہے

Aug 09, 202307:45
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں

بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں

https://youtu.be/cvUuoOH4D50

پیش خدمت ہے "کالم شاہ محی الحق فاروقی کے "میں ان کا کالم

بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں

یہ کالم 12 اکتوبر 1997 کو شائع ہوا تھا

چینل کا لنک

https://youtube.com/@user-uh5ry5sk6l?sub_confirmation=1

تمام کالموں کی پلے لسٹ کا لنک

https://studio.youtube.com/playlist/PLW8_69-eTJUvw4EB-GZ_tgDo59wI7dOL2/edit

Aug 09, 202312:06
بیتے دن بیتی یادیں قسط نمبر 5

بیتے دن بیتی یادیں قسط نمبر 5

جیسا کے پہلی قسط میں بتایا جا چکا ہے غفران امتیازی صاحب پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک نامور پروڈیوسر تھے جنہوں نے PTV میں اپنی 29 برسوں کی یادوں پر مشتمل انہوں نے ایک سر گزشت لکھی تھی جس کا نام تھا " بیتے دن بیتی یادیں " ۔ اس کتاب کے آغاز میں غفران امتیازی صاحب نے "میں اور میرا خاندان" کے عنوان سے جو مضمون لکھا تھا اس دلچسپ مضمون پر مبنی پانچ قسطوں پر مشتمل یہ سلسلہ شروع کیا ہے پہلی قسط میں ا س کتاب کا تعارف کروایا جا چکا ہے جس میں غفران امتیازی صاحب نے ذکر کیا تھا اپنے خاندانی پس منظر کا اور تقسیم ہند سے قبل کے واقعات کا پہلی قسط کا لنک نیچے موجود ہے آج کی دوسری قسط ہے دوسری قسط میں غفران امتیازی صاحب نے تعارف کروا رہے ہیں اپنے بزرگوں کا اور اپنے والدین کا۔ تیسری قسط میں غفران امتیازی صاحب نے تعارف کروا رتھا اپنے بھا ئوں کا چوتھی قسط میں انہوں نے ذکرکیا تھا اپنی بہنوں کا اور اپنے تعلیمی سفرکا آج پانچویں اور آخری قسط میں غفران امتیازی صاحب ذکر کر رہے ہیںا آل انڈیا ریڈیو کے بچوں کے پروگرام کا جس کا عنوان انہوں نے دیا ہے شوق کا کوئی مول نہیں اس کے علاوہ غفران صاحب نے اپنی اہلیہ اور اپنے بچوں کا اور اس مضمون کا اختتام کیا ہے انہوں نے پی ٹی وی میں اپنے گزرے ہو ئے دنوں کی یادوں سے پہلی چار قسطوں کے لنک نیچے موجود ہے قسط نمبر :1 https://youtu.be/4n2ofaiBb70 قسط نمبر :2 https://youtu.be/8FPIe115qCk قسط نمبر :3 https://youtu.be/Abh-WRj4LB0 قسط نمبر :4 https://youtu.be/OMDKRTfclnw

Jul 22, 202311:48
بیتی دن بیتی باتیں قسط نمبر 4

بیتی دن بیتی باتیں قسط نمبر 4


جیساکے پہلی قسط میں بتایا جا چکا ہے غفران امتیازی صاحب پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک نامور پروڈیوسر تھے جنہوں نے PTV میں اپنی 29 برسوں کی یادوں پر مشتمل انہوں نے ایک سر گزشت لکھی تھی جس کا نام تھا " بیتےدن بیتی یادیں " ۔ اس کتاب کے آغاز میں غفران امتیازی صاحب نے "میں اور میرا خاندان" کے عنوان سے جو مضمون لکھا تھا اس دلچسپ مضمون پر مبنی پانچ قسطوں پر مشتمل یہ سلسلہ شروع کیا ہے پہلی قسط میں ا س کتاب کا تعارف کروایا جا چکا ہے جس میں غفران امتیازی صاحب نے ذکر کیا تھا اپنے خاندانی پس منظر کا اور تقسیم ہند سے قبل کے واقعات کا پہلی قسط کا لنک نیچے موجود ہے آج کی دوسری قسط ہے

دوسری قسط میں غفران امتیازی صاحب نے  تعارف کروا رہے ہیں اپنے بزرگوں کا اور اپنے والدین کا۔

 تیسری  قسط میں غفران امتیازی صاحب نے  تعارف کروا رتھا  اپنے بھا ئوں کا

آج چھوتی قسط میں وہ ذکر کر رہے ہیں اپنی  بہنوں کا اور اپنے تعلیمی سفر کا

پہلی تین قسطوں کے لنک نیچے موجود ہے

 قسط نمبر :1

 https://youtu.be/4n2ofaiBb70

قسط نمبر :2

https://youtu.be/8FPIe115qCk

قسط نمبر :3

https://youtu.be/Abh-WRj4LB0


Jul 21, 202309:03
بیتے دن بیتی یادیں قسط نمبر 3

بیتے دن بیتی یادیں قسط نمبر 3

جیسا کے پہلی قسط میں بتایا جا چکا ہے غفران امتیازی صاحب پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک نامور پروڈیوسر تھے جنہوں نے PTV میں اپنی 29 برسوں کی یادوں پر مشتمل انہوں نے ایک سر گزشت لکھی تھی جس کا نام تھا " بیتے دن بیتی یادیں " ۔ اس کتاب کے آغاز میں غفران امتیازی صاحب نے "میں اور میرا خاندان" کے عنوان سے جو مضمون لکھا تھا اس دلچسپ مضمون پر مبنی پانچ قسطوں پر مشتمل یہ سلسلہ شروع کیا ہے پہلی قسط میں ا س کتاب کا تعارف کروایا جا چکا ہے جس میں غفران امتیازی صاحب نے ذکر کیا تھا اپنے خاندانی پس منظر کا اور تقسیم ہند سے قبل کے واقعات کا پہلی قسط کا لنک نیچے موجود ہے آج کی دوسری قسط ہے


دوسری قسط میں غفران امتیازی صاحب نے تعارف کروا رہے ہیں اپنے بزرگوں کا اور اپنے والدین کا۔ پہلی قسط کا لنک

قسط نمبر :1

https://youtu.be/4n2ofaiBb70

قسط نمبر :2

https://youtu.be/8FPIe115qCk

Jul 20, 202317:31
بیتےدن - بیتی باتیں قسط نمبر 2

بیتےدن - بیتی باتیں قسط نمبر 2

جیسا کے پہلی قسط میں بتایا جا چکا ہے غفران امتیازی صاحب پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک نامور پروڈیوسر تھے جنہوں نے PTV میں اپنی 29 برسوں کی یادوں پر مشتمل انہوں نے ایک سر گزشت لکھی تھی جس کا نام تھا " بیتے دن بیتی یادیں " ۔ اس کتاب کے آغاز میں غفران امتیازی صاحب نے "میں اور میرا خاندان" کے عنوان سے جو مضمون لکھا تھا اس دلچسپ مضمون پر مبنی پانچ قسطوں پر مشتمل یہ سلسلہ شروع کیا ہے پہلی قسط میں ا س کتاب کا تعارف کروایا جا چکا ہے پہلی قسط میں غفران امتیازی صاحب نے ذکر کیا تھا اپنے خاندانی پس منظر کا اور تقسیم ہند سے قبل کے واقعات کا پہلی قسط کا لنک نیچے موجود ہے آج کی دوسری قسط ہے - اس دوسری قسط میں وہ تعارف کروا رہے ہیں اپنے بزرگوں کا اور اپنے والدین کا۔ پہلی قسط کا لنک قسط نمبر :1 https://youtu.be/4n2ofaiBb70

Jul 18, 202312:23
میں اور میرا خاندان قسط نمبر1

میں اور میرا خاندان قسط نمبر1

غفران امتیازی مرحوم پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک نامور پروڈیوسر تھے جنہوں نے PTV میں اپنی 29 برسوں کی یادوں پر مشتمل ایک سرگزشت لکھی اپنی کتاب میں جس کا نام ہے " بیتے دن بیتی یادوں " ۔ ا س کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں پاکستان ٹیلیویژن کی تاریخ نے اس سوانح عمری کو ایک اہم حوالہ جاتی کتاب بنا دیا ہے ۔ یہ کتاب برقی میڈیا صنعت سے وابستہ لوگوں کے لیئے اور ان لوگوں کے لیے جو اس میدان میں آنا چاہتے ہیں اسے ایک ٹیکسٹ بک کا درجہ رکھتی ہے غفران صاحب نے اس کتاب کے انتساب میں لکھا ہے کہ "یہ کتاب خصوصی طور برقی میڈیا کے طلبہ کے نام ہے " اس کتاب کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ ایک طرف ایک عمدہ سوانح عمری ہے تو دوسری طرف اس کتاب میں غفران امتیازی صاحب نے اپنے درجن بھر ساتھیوں کے خوبصورت خاکے بھی تحریر کیئے ہیں جن میں سے اکثر ٹیلی ویژن کی دنیا میں لیجنڈ کہ حیثیت رکھتے ہیںکتابوں کا تعارف اور کتابوں سے اقتباس کے سلسلے میں آج میں نے ان کا مضمون منتخب کیا ہے "میں اور میرا خاندان " ۔یہ مضمون کا آغاز وہ اس سوال سے کرتے ہیں کہ" میں کون ہوں اے ہم نفسو "سے اور ان کا یہ پورا مضمون اس سوال کا جواب ہے ۔ مضمون کہ طوالت کے پیش نظر یہ پیش خدمت ہے پانچ قسطوں میں آج کی اس پہلی قسط میں غفران امتیازی صاحب نے تعارف کروایا ہے اپنے بزرگوں کا اپنے والدین کا۔

Jul 15, 202313:56
شورش کاشمیری قسط 3

شورش کاشمیری قسط 3

"کتابیں کو میں نے پڑھیں" کے حوالے سے جناب محمود احمد صاحب شورش کاشمیری صاحب کی شخصیت کا جائزہ لے رہے ہیں ان کتابوں کی روشنی میں جو شورش صاحب نے تحریر کیں یا ان کے بارے میں تحریر کی گئیں ۔ آج یہ اس گفتگو کی تیسری قسط ہے

آج کی اس قسط میں محمود صاحب نے شورش کاشمیری  صاحب   کی شخصیت کا جائزہ لیا ہے ان کے ہم عصر ادیبوں   اور شاعروں  کی تحریروں  اور تجربات کی روشنی میں

  بتاتے ہیں  کہ احسان دانش   صاحب شورش کاشمیری کے استاد بھی تھے جنہوں  نے ان کا تخلص الفت سے بدل کر شورش  رکھا تھا -احسان دانش   نے اپنی کتاب جہان دانش  میں جوش صاحب کے بارے میں لکھا  کہ وہ منہ پھٹ  اور گلیئر  تھے مگر محمود صاحب کہتے ہیں کہ شورش کاشمیری  صرف دوستوں کی نجی محفل میں گلیئرہوا کرتے   تھے مگر  اپنی تقاریر  اور خطبوں  میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے۔ کوئی اخلاق سے گرا  لفظ ان کی زبان سے نہ نکلتا تھا -محمود صاحب نے بتایا کہ شورش صاحب کو دشمنی کا سلیقہ  آتا تھا اور وہ گرے ہوئے دشمن پر کبھی وار نہیں  کرتے تھے -  محمود صاحب بتاتے  ہیں  کہ شورش کاشمیری صاحب   کی الطاف حسین قریشی  سے بالکل نہیں بنتی تھی مگر جب وہ بھٹو صاحب  کے زمانے میں اپنے بھائی کے ہمراہ گرفتار ہوئے  اور لوگوں نے شورش صاحب کو چڑھانا چاہا کہ اب بدلہ لینے کا اچھا موقع  ہے  تو شورش  صاحب نے کہا کہ وہ مشکل میں ہیں میں ان سے بدلہ نہیں لوں گا بلکہ اس مشکل سے نکلنے میں ان کی مدد کروں   گا ۔ 

حبیب جالب صاحب کے بارے میں ایک بہت دلچسپ قصہ لکھا کہ ایک بار ان  کی سڑک پر پولیس والوں نے جامہ تلاشی لے لی تھی  انہوں نے شورش صاحب سے شکایت کی تو وہ غصے کے عالم میں وقوعہ پر پہنچے  اور وہاں ہنگامہ کھڑا کر دیا  پھر پولیس اسٹیشن جا کر ہنگامہ کیا کہ پولیس والوں کی جرائت  کیسے ہوئی  حبیب جالب  کی جامہ تلاشی لینے کی- معاملہ چیف سیکریٹری پنجاب تک پہنچا مگر شورش صاحب اس معاملہ کو رفع دفع کرنے کو تیار نہ ہوئے  بالاخر بھٹو صاحب نے شورش کاشمیری صاحب کو فون کیا کہ میں تحقیق کروا چکا ہوں جسمانی تلاشی ضرور ہوئی تھی مگر     حبیب جالب صاحب پر کسی قسم کا  جسمانی تشدد نہیں ہوا تھا مگر بھٹو کے فون کا بھی ان پر کوئی اثر نا ہوا ان کا غصہ تب  ٹھنڈا ہوا جب  متعلقہ پولیس والوں کو معطل کردیا گیا  اس قسم کے اور بھی چھوٹے چھوٹے  واقعات آپ کو سننے کو ملیں گے اس تیسری قسط میں

پہلی دو قسطوں کا خلاصہ

پہلی قسط اور دوسری قسط میں ( جن کا لنک نیچے دیے گئے ہیں ) محمود صاحب نے بتایا تھا کہ عصر حاضر میں جو خطیب گزرے ہیں ان میں بڑے نام مولانا ابوالکلام آزاد , بہادر یار جنگ ۔عطا اللہ شاہ بخاری ، مولانا ظفر علی خان اور شورش کاشمیری کے ہیں ۔محمود صاحب نے مزید بتایا تھا کہ مولانا ظفر علی خان اور شورش کاشمیری میں قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں اپنے وقت کے بڑے خطیب اور بڑے صحافی تھے اس گفتگو میں محمود صاحب کتابوں کی روشنی میں شورش کاشمیری کے ابتدائی ایام کا جائزہ لیا تھا اسی طرح دوسری قسط ۔ محمود احمد صاحب نے جائزہ لیا ہے شورش کاشمیری صاحب اور مولانا کوثر نیازی کے درمیان معرکہ ارائی کا جو بڑھتے بڑھتے لاہور کی ٹولنگٹن روڈ پر مارکٹ میں ہاتھا پائی تک پہنچ گئی جس ذکر مولانا کوثر نے اپنی کتاب میں کیا اس جھڑپ کے بارے میں کشور ناہید نے اپنی کتاب شناسیاں رسوائیاں میں لکھا کہ اس لڑائ میں شورش کاشمیری اور کوثر نیازی کے درمیان بوتلوں اور گھی کے ڈبے کا استعمال کیا گیا محمود صاحب نے بتایا تھا کوثر نیازی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ان کے جوان بیٹے کے انتقال پر شورش نے جو اس وقت اسپتال میں نظر بند تھے تھے کوثر نیازی صاحب تعزیت کا ٹیلی گرام بھیجا اور وہ اتنا درد بھرا پیغام تھا کہ کوثر نیازی صاحب کہتے ہیں کہ اسے پڑھتے ہوئے میرے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے اور میں دیر تک روتا رہا پھر میرے اور شورش کاشمیری کے تعلقات بہت ہوگئے دوسری قسط میں محمود صاحب نے شورش کاشمیری اور بھٹو صاحب کے درمیان تعلقات کا ذکر کیا اور بتایا کہ شورش کاشمیری صاحب نے اپنی کتاب موت سے واپسی میں بھٹو صاحب کے اس خط کا عکس شائع کیا ہے جس میں بھٹو صاحب نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ان کے بہت سارے دوست تھے اوران کی خواہش تھی کہ شورش کاشمیری بھی ان کے دوستوں میں شامل ہو جائیں۔ پھر بھٹو صاحب کہ دوستی کی یہ پہش کش کیسے دشمنی میں بدلی اس سارے معاملے کا ذکر آپ کو آج اس دوسری قسط میں ملے گا

 قسط نبمر 1

https://youtu.be/_FDQfgq8H4o

قسط نبمر2

 https://youtu.be/iVde_PDHBFs

Jul 13, 202315:12
گفتگو اور تقریر کا فن

گفتگو اور تقریر کا فن

علم و ہنر کے سلسلہ وار پروگرام " جینے کے قرینے" کے سلسلے میں اس ویڈیو کا موضوع ہے " گفتگو اور تقریر کا فن "

اس ویڈیو میں بنیادی طور پر گفتگو اور تقریر کے درمیان جو فرق ہے اس کو واضح کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان تمام باتوں کو بھی نشاندہی کی گئی ہے

جو گفتگو کے فن اور تقریر کے فن میں مشترک ہیں

"گفتگو اور تقریر کا فن" پر گفتگو کا یہ سلسلہ اجاری رہے گا اور اگلی قسطوں میں آپ گفتگو اور تقریر کے فن سیکھنے کی اہمیت پر مزید کچھ اور باتیں بھی سنیں گے

اس پہلی ویڈیو میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ کون کون سی باتیں ہیں جس کا ہمیں دوران گفتگو یا دوران تقریر خیال رکھنا چاہیے

گفتگو اور تقریر کی دوران مقرر کی ظاہری وضح قطع کی کیا اہمیت ہے بدن بولی یا باڈی لینگویج کیسی ہو۔ گفتگو یا تقریر کے دوران مقرر کو سامعین کی آنکھون میں کیوں رابطہ رکھنا چاہیئے یہ سب آپ کو اس ویڈیو میں جاننے کو ملے گا

اس ویڈیو میں مقررکے ذخیرہ الفاظ کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے

الفاظ کا ذخیرہ کیسا ہو

ایک اہم بات جو آپ کو معلوم ہوگی وہ یہ ہے کہ اگر آپ کو تقریر کا فن آتا ہے تو عملی زندگی اس کے کتنے فوائد ہیں بالخصوص ان لوگوں کو جو شعبہ تدریس سے وابستہ ہوتے ہیں یا وہ جو کسی پینل کو انٹرویو دینگے تو اس میں فن تقریر میں سیکھا ہوا اعتماد اور اپنی بات دوسروں تک پہچانے کا فن آپ کی کام آئے گا

Jul 12, 202312:12
شورش کاشمیری قسط نمبر 2

شورش کاشمیری قسط نمبر 2

"کتابیں کو میں نے پڑھیں" کے حوالے سے جناب محمود احمد صاحب شورش کاشمیری صاحب کہ شخصیت کا جائزہ لے رہے ہیں ان کتاب کی روشنی میں جو شورش صاحب نے تحریر کیں یا ان کے بارے میں تحریر کی گئیں ۔ آج یہ اس گفتگو کی دوسری قسط ہے پہلی قسط میں ( جس کا لنک نیچے دیا گیا ہے ) محمود صاحب نے بتایا تھا کہ عصر حاضر میں جو خطیب گزرے ہیں ان میں بڑے نام مولانا ابوالکلام آزاد , بہادر یار جنگ ۔عطا اللہ شاہ بخاری ، مولانا ظفر علی خان اور شورش کاشمیری کے ہیں ۔محمود صاحب نے مزید بتایا تھا کہ مولانا ظفر علی خان اور شورش کاشمیری میں قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں اپنے وقت کے بڑے خطیب اور بڑے صحافی تھے اس گفتگو میں محمود صاحب کتابوں کی روشنی میں شورش کاشمیری کے ابتدائی ایام کا جائزہ لیا تھا آج پیش خدمت ہے اس کی دوسری قسط ۔ محمود احمد صاحب نے اس قسط میں جائزہ لیا ہے شورش کاشمیری صاحب اور مولانا کوثر نیازی کے درمیان معرکہ ارائی کا جو بڑھتے بڑھتے لاہور کی ٹولنگٹن روڈ پر مارکٹ میں ہاتھا پائی تک پہنچ گئی جس ذکر مولانا کوثر نے اپنی کتاب میں کیا اس جھڑپ کے بارے میں کشور ناہید نے اپنی کتاب شناسیاں رسوائیاں میں لکھا کہ اس لڑائ میں شورش کاشمیری اور کوثر نیازی کے درمیان بوتلوں اور گھی کے ڈبے کا استعمال کیا گیا کوثر نیازی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ان کے جوان بیٹے کے انتقال پر شورش نے جو اس وقت اسپتال میں نظر بند تھے تھے کوثر نیازی صاحب تعزیت کا ٹیلی گرام بھیجا اور وہ اتنا درد بھرا پیغام تھا کہ کوثر نیازی صاحب کہتے ہیں کہ اسے پڑھتے ہوئے میرے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے اور میں دیر تک روتا رہا پھر میرے اور شورش کاشمیری کے تعلقات بہت ہوگئے اس قسط میں شورش کاشمیری اور بھٹو صاحب کے درمیان تعلقات کا ذکر کیا اور بتایا کہ شورش کاشمیری صاحب نے اپنی کتاب موت سے واپسی میں بھٹو صاحب کے اس خط کا عکس شائع کیا ہے جس میں بھٹو صاحب نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ان کے بہت سارے دوست تھے اوران کی خواہش تھی کہ شورش کاشمیری بھی ان کے دوستوں میں شامل ہو جائیں۔ پھر بھٹو صاحب کہ دوستی کی یہ پہش کش کیسے دشمنی میں بدلی اس سارے معاملے کا ذکر آپ کو آج اس دوسری قسط میں ملے گا قسط نبمر 1 https://youtu.be/_FDQfgq8H4o

Jul 11, 202310:50
کراچی کا اردو بازار

کراچی کا اردو بازار

حیات رضوی امروہوی صاحب کراچی کی ایک ممتاز شخصیت، ایک اچھے شاعر اور ادیب تھے اسی سال دو جولائی کو انہوں نے اپنی رہائش گاہ پرایک مشاعرے کا اہتمام کیا۔ حیات رضوی نے اس موقع پر حاضرین محفل کو بتایا کہ وہ 83 برس کے ہو گئے ہیں لیکن وہ اردو ادب کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میرا دل چاہ رہا تھا کہ کچھ دوستوں سے ملاقات ہو جائے لہٰذا میں نے یہ مشاعرہ ترتیب دیا ہے۔ اپنے رسالے عمارت کار ذکر کرتے ہوئے انہوں نے حاضرین محفل کو بتایا کہ ان کا رسالہ عمارت کار 15 سال سے بلاتعطل شائع ہو رہا ہے لیکن اب پبلشنگ کے مسائل بڑھ گئے ہیں اور مہنگائی کے سبب رسالے کی اشاعت جاری رکھنا ممکن نہیں ہے لہٰذا وہ 30 ویں شمارے کے بعد یہ پرچہ بند کر دیں گے تاہم آن لائن کام جاری رہے گا ۔ اس اعلان کے اگلے دن ہی حیات رضوی صاحب۔ کا انتقال ہو گا حیات رضوی صاحب کی کتابوں میں ان کا مجموعہ کلام زاویہ حیات ، خلاصہ قرآن ، سر سید پر کتاب آثار الصنادید ۔ "پاکستان میں مسلم عمارت کاری"اور کراچی کے بارے میں ان کے مضامین کا مجموعہ کرانچی کرانچی شامل ہیں ۔ اس کتاب میں حیات رضوی صاحب نے کراچی، اس کے مضافات اور سندھ کے بہت سے مقامات کے بارے میں تذکرہ کیا ہے یہ دراصل ان مضامین کا مجموعہ ہے جو روزنامہ جنگ میں ان کے کالم "کولاچی کراچی" اور ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوتے رہے ہیں ان کے مضامین میں سے آپ کے لیئے منتخب کیا ان کا مضمون " کراچی کا اردو بازار " آئیے سنتے ہیں

Jul 07, 202313:24
شورش کاشمیری قسط نمبر 1

شورش کاشمیری قسط نمبر 1

"کتابیں کو میں نے پڑھیں" کے حوالے سے پچھلے دنوں آپ نے محمود احمد صاحب کا تبصرہ سنا شیر باز مزاری صاحب کے کے بارے میں ۔ یہ تبصرہ تین قسطوں میں آیا تھا اور بنیادی طور پر محمود صاحب نے شیر باز خان مزاری کی شخصیت کا جائزہ لیا تھا ان کی دو سوانح عمری کہ روشنی میں اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اب محمود احمد صاحب نے انتخاب کیا ہے شورش کاشمیری صاحب کا اور وہ ان کی شخصیت کا جائزہ لیں گے ان کتابوں کی روشنی میں جو شورش کاشمیری نے خود لکھی یا ان کے۔ بارے میں لکھی گئی تھیں محمود احمد صاحب کا کہنا ہے کہ عصر حاضر میں جو خطیب گزرے ہیں ان میں بڑے نام مولانا ابوالکلام آزاد , بہادر یار جنگ ۔عطا اللہ شاہ بخاری ، مولانا ظفر علی خان اور شورش کاشمیری کے ہیں ان کا کہنا ہے کہ مولانا ظفر علی خان اور شورش کاشمیری میں قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں اپنے وقت کے بڑے خطیب اور بڑے صحافی تھے اس گفتگو کی پہلی قسط میں۔ محمود صاحب کتابوں کی روشنی میں شورش کاشمیری کے ابتدائی ایام کا جائزہ لیں گے

Jul 06, 202310:44
کالم شاہ محی الحق فاروقی کے ـ چگونہ گور بہرام گرفت

کالم شاہ محی الحق فاروقی کے ـ چگونہ گور بہرام گرفت

جناب شاہ محی الحق فاروقی صاحب کا کالم "چگونہ گور بہرام گرفت" جو24 ستمبر 1997 کو شائع ہوا تھا۔

Jun 23, 202309:31
گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھروڈاکٹر مشیر الحق

گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھروڈاکٹر مشیر الحق

"گلدستہ احباب" کے عنوان سے کتاب ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب نے مرتب کی تھی جس میں انہوں نے اپنے تحریر کردہ پندرہ احباب کے خاکے شامل کیے تھے ، ان میں سے ایک خاکہ کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مشیر الحق صاحب کا بھی تھا جو سری نگر میں شہید کر دبیے گتے تھے - ڈاکٹر اسلم فرخی کا شہید مشیر الحق سے تعارف ان کے چھوٹے بھائی مرحوم شاہ محی الحق فاروقی کے ذریعے ہوا تھا جو ڈاکٹر اسلم فرخی کے بہت قریبی دوستوں میں سے تھے، ڈاکٹر مشیر الحق تقسیم ہند کے وقت اپنے چھوٹے بھائی کے ہمراہ پاکستان منتقل ہو گتے تھے مگر جلد ہی وہ واپس ہندوستان چلے گئے ڈاکٹر اسلم فرخی سے ان کے تعلقات ان کی شہادت تک رہے جب جب ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب کا ہندوستان جانا ہوتا یا ڈاکٹر مشیر الحق صاحب پاکستان آتے دونوں میں گہری ملاقاتیں بھی ہوا کرتی تھیں اور دونوں ایک ساتھ علمی محفلوں میں شرکت کیا کرتے تھے "بیاد مشیر الحق" کا خاکہ ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب نے دل کی گہرائیوں سے انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے لکھا تھا انہیں ڈاکٹر مشیر الحق کی شہادت سے جو ذاتی صدمہ پہنچا تھا اس کا اندازہ آپ کو یہ خاکہ سن کر ہو جائے گا

Jun 22, 202322:46
TEAM MANAGEMENT

TEAM MANAGEMENT

مل کر کام کیسے کریں

https://youtu.be/QCHrtpQ1e88

جینے کے قرینے یا سافٹ اسکلز کے سلسلے میں آپ اب تک تین اہم موضوعات پر گفتگو سن چکے ہیں ہمارا پہلا پروگرام تھا کہ غصے پر کیسے قابو پایا جائے اس پروگرام کا لنک ہے

https://youtu.be/xOl9PlseQuI

دوسرے پروگرام میں ہم نے جس موضوع پر گفتگو کی تھی وہ یہ تھا کہ کامیابی کے حصول کے لیے منزل کا تعین اور منزل کی جستجو کیسےکی جائے اس پروگرام کا لنک ہے

https://youtu.be/k2f5UC1RWvM


تیسرے پروگرام میں ہم نے باہمی تنازعات کے حل پر اہم گفتگو کی تھی جس میں دو ایسے Acronyms یا مخفف الفاظ بتائے تھے جو اگر کو ئی ذہن نشین کر لے تو زندگی میں ایسے چھوٹے موٹے تنازعات با آسانی حل کر سکتا ہے جس سے آگے چل کر باہمی تعلقات میں بدمزگی اور تلخیاں بڑھنے کا امکان ہوتا ہے وہ مخفف الفاظ تھے ACCCA اور BALANCE ان مخفف الفاظ کو کیسے یاد رکھا جائے اور ان سے فائدہ کیسے اٹھایا اس کی تفصیل آپ کو تیسرے پروگرام میں دی گئی تھی جس کا لنک ہے

https://youtu.be/Kver955NLP0

آج اس سلسلے کا چوتھا اہم پروگرام ہے جو ٹیم مینجمنٹ کے بارے میں ہے یعنی مل کر کام کرنے کی کیا اہمیت ہے اور اس میں کتنی برکت ہے اس گفتگو میں آپ کو کئی اہم باتیں معلوم ہوں گی ٹیم مینجمنٹ میں قیادت کے کردار پر امید ہے یہ پروگرام بھی آپ کو پسند آئے گا اور آپ ہمیں اس پر اپنی رائے بھیجیں گے

ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ علم و ہنر کے چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے

https://youtube.com/@ilmohunar4884?sub_confirmation=1

Jun 21, 202316:10
شیر باز خان مزاری حصہ -دوم

شیر باز خان مزاری حصہ -دوم

جیسا کہ آپ کو قسط نمبر 1 میں بتایا تھا کہ ذکر کتاب پر اکثر گفتگو ہوتی رہتی ہے مصنفین کے حوالے سے ،ناشرین کے حوالے سے اور تاجران کتب کے حوالے سے۔ دیکھا جائے تو ان تینوں کے علاؤہ ایک طبقہ اور بھی ہے جس کا کتاب کی صنعت سے گہرا تعلق ہے وہ ہے کتاب کے قارئین ۔ یعنی وہ طبقہ جو کتابیں پڑھتا ہے اور خرید کر پڑھتا ہے ۔اس کے بھی مفادات کتابی صنعت سے وابستہ ہیں یعنی اس نے جو کتاب خریدی تو کیوں خریدی اور کتاب خریدنے کے بعد اس نے کیا حاصل کیا اس کتاب سے جو کچھ ملا وہ اس کی توقع کے مطابق تھا یا اسے اپنی توقع سے کم یا زیادہ لطف آیا ذکرِکتاب پر قارئین کتب کے تاثرات معلوم کرنے کے لیئے ہم جو نیا سلسلہ شروع کر رہے ہیں اس کا عنوان ہے "کتابیں جو میں نے پڑھیں" ہم اس کا آغاز کررہے ۔محمود احمد صاحب کے ساتھ کتابوں کے بارے میں گفتگو سے ۔ محمود صاحب کو لکھنے سے زیادہ پڑھنے کا شوق ہے کسی زمانے میں آپ کے مضامین اردو ڈائجسٹ میں شائع ہوا کرتے تھے مگر آپ کی کوئی کتاب باقاعدہ طور پر شائع نہیں ہوئی ہے ۔ آپ کو زیادہ شوق ہے ان لوگوں کی آپ بیتی اور سوانح عمری پڑھنے میں جو مختلف شعبوں میں ممتاز ہوئے جن میں شاعر ادیب سیاستدان وغیرہ شامل ہیں ۔ محمود صاحب اس گفتگو کا آغاز کر رہے ہیں شیر باز خان مزاری کی دو سوانح عمری سے ،جس میں ایک اردو زبان میں ہے جس کا نام ہے " شیر باز خان مزاری - ایک عہد ساز جمہوری شخصیت کا زندگی نامہ " جو سعید خاور صاحب نے تحریر کی دوسری سوانح انگریزی زبان میں ہے۔ جس کا نام ہے جس کا عنوان ہے۔ Sheebaz Khan Mazari , A journey to disillusionment ان دونوں سوانح کے مطالعے سے کیا اخذ کیا اس کا ذکر کریں گے محمود صاحب تین قسطوں کہ اس میں پروگرام میں اس سلسلے کا پہلا پروگرام جو شیر باز خان مزاری کے خاندانی پس منظر اور ابتدائی زندگی کے بارے میں تھا آپ پہلے ہی سن چکے ہیں جس کا لنک ہیں آج اس سلسلے کا دوسرا پروگرام پیش خدمت ہے جو شیر باز خان مزاری صاحب کی سیاسی زندگی کے پہلے دور کے بارے میں ہے جو 1970 سے شروع ہوا جو 1975 تک گیا ۔

Jun 17, 202309:09
 شیر باز خان مزاری -حصہ اول

شیر باز خان مزاری -حصہ اول

ذکر کتاب۔ پر اکثر گفتگو ہوتی رہتی ہے مصنفین کے حوالے سے ناشرین کے حوالے سے اور تاجران کتب کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان تینوں کے علاؤہ ایک طبقہ اور بھی ہے جس کا کتاب کی صنعت سے گہرا تعلق ہے وہ ہے کتاب کے قارئین ۔ یعنی وہ طبقہ جو کتابیں پڑھتا ہے اور خرید کر پڑھتا ہے ۔اس کے بھی مفادات کتابی صنعت سے وابستہ ہیں یعنی اس نے جو کتاب خریدی تو کیوں خریدی اور کتاب خریدنے کے بعد اس نے کیا حاصل کیا اس کتاب سے جو کچھ ملا وہ اس کی توقع کے مطابق تھا یا اسے اپنی توقع سے کم یا زیادہ لطف آیا


کتاب کے پر قارئین کتب کے تاثرات معلوم کرنے کے لیئے کم جو نیا سلسلہ شروع کر رہے ہیں ' کتابین جو میں نے پڑھیں اس کا آغاز کر ہو گا محمود احمد صاحب سے کتابوں کے بارے میں گفتگو سے ۔ محمود صاحب کو لکھنے سے زیادہ پڑھنے کا شوق ہے کسی زمانے میں آپ کے مضامین اردو ڈائجسٹ میں شائع ہوا کرتے تھے مگر آپ کی کوئی کتاب باقاعدہ طور پر شائع نہیں ہوئی ہے ۔ آپ کو زیادہ شوق ہے ان لوگوں کی آپ بیتی اور سوانح عمری پڑھنے میں جو مختلف شعبوں میں ممتاز ہوئے جن میں شاعر ادیب سیاستدان اب شامل ہیں ۔ محمود صاحب اس گفتگو کا آغاز کر رہے ہیں شیر باز خان مزاری کی دو سوانح عمری سے کس میں ایک اردو زبان میں ہے جس کا نام ہے " شیر باز خان مزاری - ایک عہد ساز جمہوری شخصیت کا زندگی نامہ " جو سعید خاور صاحب دوسری سوانح انگریزی زبان میں۔ ہے جس کا نام ہے جس کا عنوان ہے۔ Sheebaz Khan Mazari ,a journey to disillusionment ان دونوں سوانح کے مطالعے سے کیا اخذ کیا اس کا ذکر کریں گے محمود صاحب تین قسطوں میں آج یہ اس سلسلے کا پہلا پروگرام ہے جو شیر باز خان مزاری کے خاندانی پس منظر اور ابتدائی زندگی کے بارے میں ہے

Jun 16, 202314:47
باتیں ہماری یادرہیں گی

باتیں ہماری یادرہیں گی

باتیں ہماری یاد رہیں گی جناب ثوبان امتیازی صاحب کی ایک خوبصورت تصنیف ہے اس کتاب میں ثوبان امتیازی صاحب اپنی اور اپنے احباب کی زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات بہت دلچسپ انداز میں بیان کیئے ہیں ان قصوں میں سے ایک قصے کا انتخاب آج کے اس پروگرام میں شامل ہے


باتیں ہماری یاد رہیں گی پر ایک خوبصورت تبصرہ محترم رفیع الزماں زبیری صاحب نے کیا تھا جو روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہوا تو جسے نیچے نقل کرہا ہوں رفیع الزماں زبیری صاحب اور روزنامہ ایکسپریس سے شکریئے کے ساتھ

منقول


زندگی میں عموماً کچھ واقعات ایسے پیش آتے ہیں جو بھلائے نہیں جاتے۔

زندگی میں عموماً کچھ واقعات ایسے پیش آتے ہیں جو بھلائے نہیں جاتے۔ ضروری نہیں کہ ان کا تعلق ہماری ذات سے ہی ہو، بعض واقعات دوسروں کے بھی ایسے ہوتے ہیں جو ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔ ثوبان امتیازی کی کتاب ’’باتیں ہماری یاد رہیں گی‘‘ میں کچھ ایسے ہی واقعات کا ذکر ہے۔ ثوبان اردو زبان اور ادب میں ایم اے ہیں، راولپنڈی کے گورڈن کالج میں اردو کے استاد رہے ہیں۔ قانون بھی پڑھا اگرچہ ملازمت بینک میں کی ہے اور اسی سلسلے میں لندن میں رہے ہیں۔


ثوبان امتیازی لکھتے ہیں ’’میری والدہ بڑی شفیق اور نرم دل تھیں۔ جو ملتا تھا ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ اپنے ہوں یا غیر کے سب بچوں پر جان چھڑکتی تھیں۔ آخر عمر میں بینائی سے محروم ہو گئی تھیں۔ ایک آنکھ سے جس کا آپریشن ہوا تھا، دھندلا دھندلا نظر آتا تھا۔ بس اسی سے کام چلاتی تھیں۔‘‘ 1956ء میں وہ اپنے شوہر کے ساتھ حج پر گئیں۔ ایک دن طواف کر کے جب وہ ایک طرف جا کر بیٹھیں تو دل میں ہوک اٹھی کہ حجر اسود کا بوسہ دوں۔ میاں سے کہنے لگیں ’’مجھے حجر اسود کا بوسہ تو دلوا دو۔‘‘ وہ چیخ کر بولے ’’تم آنکھوں سے معذور ہو۔ اتنا رش ہے۔


میں کیسے تمہیں حجر اسود کا بوسہ دلوا دوں۔‘‘ چپ ہو گئیں اور دل ہی میں کہنے لگیں ’’اے میرے اللہ! تُو نے مجھے اتنی دور سے اپنے گھر بلایا ہے۔ مجھ نابینا، معذور ور بوڑھی عورت کو کسی طرح حجر اسود کا بوسہ تو دلوا دے۔‘‘ ابھی یہ دعا دل سے نکلی ہی تھی کہ ان کے میاں کی آواز آئی ’’چلو چلو۔۔۔ اٹھو! ایک صاحب کہہ رہے ہیں کہ وہ حجر اسود کا بوسہ دلوا دیں گے۔‘‘ یہ سن کر وہ خوش ہو گئیں، جلدی سے اٹھیں اور تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے اپنے شوہر کا ہاتھ پکڑ کر ایک صاحب کے پیچھے چل پڑیں۔ وہ صاحب عربی میں کچھ کہتے ہوئے لوگوں کو ہٹا رہے تھے اور ہمارے لیے راستہ بنا رہے تھے۔


آخر ان صاحب نے انھیں حجر اسود کا بوسہ دلوا دیا اور واپس لا کر اسی جگہ بٹھا دیا۔ پھر وہ غائب ہو گئے۔ نہ جانے کون تھے، کہاں سے آئے اور کہاں چلے گئے۔


مرزا یوسف بیگ ثوبان امتیازی کی بیگم کی ایک بہت پیاری سہیلی رضوانہ کے شوہر تھے۔ لندن میں ایک مشترکہ دوست ڈاکٹر عرفان کے ہاں، ان کی دعوت ہوئی۔ وہاں عمرہ کے لیے ان کے سعودی عرب جانے کا ذکر نکل آیا۔ مرزا یوسف بیگ کہنے لگے، لو مجھ سے اس کا احوال سنو۔ ہوا یوں کہ مرزا یوسف اپنی ضعیف والدہ کو ان کے انکار کرنے کے باوجود کراچی سے واپس لندن آتے ہوئے اپنے ساتھ لے آئے۔


کچھ عرصہ تو وہ مطمئن رہیں اور پھر تنہائی اور موسم سے اکتا کر کراچی واپس جانے پر اصرار کیا۔ مرزا پہلے تو بہانے کرتے رہے پھر آخر تیار ہو گئے۔ کہنے لگے ’’اماں! میں تمہیں عمرہ کرواتے ہوئے واپس کراچی لے جاؤں گا۔‘‘ ان کی والدہ خوش ہو گئیں۔ مرزا نے اپنا اور والدہ کا پاسپورٹ سعودی سفارت خانے میں جمع کرا دیا، چھٹی کی درخواست بھی اپنے دفتر کو دے دی۔ چند دن میں ویزے لگ کر پاسپورٹ مل گئے اور چھٹی بھی منظور ہو گئی۔


اب یوسف مرزا نے مصری ایئرلائن سے دو سیٹیں لندن، جدہ، کراچی کے لیے بک کرائیں، اور والدہ کو لے کر روانہ ہو گئے۔ جہاز لندن سے اڑ کر قاہرہ پہنچا۔ وہاں سے انھیں دوسرے جہاز سے جدہ جانا تھا۔ جب وہ مقررہ وقت پر چیک اِن کاؤنٹر پر پہنچے تو انھیں بتایا گیا کہ ان کے ویزوں کی میعاد ختم ہو گئی اور وہ سعودی عرب نہیں جا سکتے۔ مرزا صاحب حیران ہو گئے۔ بقول شخصے ان کے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی۔

اب وہ اپنی والدہ کے پاس آئے اور ان سے کہا ’’اماں! تم یہیں بیٹھی رہنا، کہیں نہیں جانا، میں بس یوں گیا اور یوں آیا۔‘‘ ان کی والدہ نے پوچھا ’’تم کہاں جا رہے ہو؟‘‘ انھوں نے جواب دیا ’’سعودی عرب کے سفارت خانے نیا ویزا لگوانے، کیونکہ پرانا ویزا ختم ہو گیا ہے۔‘‘ انھوں نے دیکھا، ان کی ماں یہ سن کر متفکر ہو گئیں۔ کہنے لگیں ’’بیٹا! اپنا خیال رکھنا۔‘‘ یوسف نے پوچھا ’’کیوں اماں؟‘‘ کہنے لگیں ’’بیٹا! یہ مصر ہے اور یہاں کے لوگ بہت خراب ہوتے ہیں۔ تجھے پتہ نہیں کہ حضرت یوسف ؑ کے ساتھ کیا ہوا تھا اور بیٹا! تیرا نام بھی یوسف ہے۔ کہیں تجھے بھی کوئی بہلا پھسلا کر کسی اندھے کنوئیں میں نہ پھینک دے۔‘‘


Jun 15, 202310:36
conflict resolation
Jun 14, 202315:37
منزل کی جستجو

منزل کی جستجو


علم و ہنر کے چینل پر ایک نیا سلسلہ جینے کےقرینے شروع کیا ہے جس کا بنیادی مقصد ہے لوگوں کو سافٹ اسکلز کی تربیت دینا ۔ اپنے ایک پچھلے پروگرام میں ہم نے جائزہلیا تھا غصے کے نقصانات کا اور غصے پر قابو پانے کے طریقوں کا اس ویڈیو میں آپ گفتگو سنیں گے کسی ادارے کی مقصد اولین یا نصب العین کی اہمیت پر یعنی اس ادارے کو ویزن کے بارے میں ادارے کے تمام کارکنان کو مکمل آگہی دینے اور ان کو ساتھ لے کر چلنے کی اہمیت کوئی ادارہ کیوں بنا اس کا ویژن تو ان کے پاس ہوتا ہے جو وہ ادارہ بناتے ہیں مگر کامیابی تب ہی ملتی ہے کہ پوری ٹیم اس ویژن کا اپنا ذاتی نصب العین سمجھے اور اس کے حصول کے لیَے اتنی ہی کوشش کرے گویا وہ اس کے ذاتی مقصد حیات کا حصہ ہے

Jun 07, 202313:05
غصے پر قابو

غصے پر قابو

شاہ محی الحق فاروقی اکیڈمی کے دوسرے یو ٹیوب چینل علم و ہنر پر اب دیکھ سکیں گے مختلف۔ تربیتی موضوعات پر گفتگو کا ایک نیا سلسلہ " جینے کے قرینے" یعنی سافٹ اسکلز


اس سلسلے کی پہلی گفتگو پیش خدمت ہے جو غصے کے موضوع پر ہے جس میں اس بات کا احاطہ کیا گیا ہے کہ غصے کے اسباب کیا ہیں اور اس کمزوری میں مبتلا شخص کی۔ گھریلو اور پیشہ ورانہ زندگی پر کتنی برے اثرات پڑتے ہیں ۔ غصے کی عادت کو کیسے ترک کیا جا سکتا ہے

گفتگو میں شریک ہیں سید محمد شاہد صاحب جن کا بیس سال سے زیادہ بنکاری کا تجربہ ہے آپ پاکستان کے پانچ بڑے بنکوں میں سے ایک بڑے بنک میں بہت ذمہ دار منصب پر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں آپ کی اگلی گفتگو کسی ادارے کے ویژن اور مشن کی اہمیت پر ہو ہوگی


علم و ہنر کے چینل پر ممکن ہے جلد ہیں مختلف ملکی قوانین پر بھی گفتگو کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے جس ان قوانین پر بات ہو گی جن کا جاننا ایک عام آدمی کے لیئے بھی ضروری ہے اگر آپ ان موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں تو علم و ہنر کے یو ٹیوب چینل کو سبسکرایب بھی کریں اور ہمیں یہ بھی بتائیں کہ آپ کا قسم کی تربیتی کلپس دیکھا پسند کریں گے

May 31, 202311:56
چاند ہتھیلی پر تحریر عبدالباسط

چاند ہتھیلی پر تحریر عبدالباسط

چاند ہتھیلی پر ، ایک خوبصورت سفرنامہ جو قاری میں عزم ہمت ولولہ اور جوش پیدا کرتا ہے ۔ ہم لوگوں میں اکثر اگر کسی کے پانوں میں موچ یا کمر میں چمک آجائے تو ہم سب سے اپنی پریشانیوں کا اظہار کرتے ہیں گھومنا پھرنا ملنا جلنا سب موقوف ہو جاتا ہے مگر عبداللباسط صاحب ایک مثال ہیں کہ بی ایس سی کرنے کے بعد میڈیکل ریپریزینٹیو کی ملازمت کر رہے تھے کہ پاؤں میں رسولی کے باعث ان کی ٹانگ گھٹنے کے اوپر سے کاٹ دی گئی ۔ جب پہلی بار باپ نے ابیٹے کو بیساکھی پر دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی کو اس حال میں دیکھ باپ کو کتنا صدمہ ہوا ہو گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ مگر عبدالباسط صاحب کا تو اس حادثے کے بعد عزم مزید جوان ہوگیا یہ حادثہ 1992 میں ہوا تھا اور وہ انیس سو پچانوے میں وہ پہلی بار پاکستان کے شمالی علاقے سیر کو ا گئے پھر تو ان میں جو شوق سفر پیدا ہوا تو شمالی علاقہ جات کی وادی وادی گھوم کر دیکھ لی ۔ ایک طرف وہ کاغان ناران چترال کیلاش گلگت کشمیر اسکردو کی دور دراز کی وادیوں میں گھومتے رہے کبھی دوستوں کے ساتھ لانچ کا طویل سفر اس لیئے کیا کہ دور دراز کے ساحل پر ایک سنسان جزیرے پر رات گزار سکیں وہاں مشرق سے سورج کو ایسےطلوع ہوتے دیکھا جیسے سمندر سے نارنجی گیند ابھر رہی ہو۔وہاں سے آہستہ دیبل کہ بندرگاہ تھا پہنچے دیبل کے کھنڈرات سے ہوتے ہوئے سسی کے بھنبھور جا پہنچے ۔عبدالباسط صاحب نے سمندر کے حسن کو بھی دیکھا اور پہاڑی چوٹیوں کی بلندیوں کو سر بھی کیا ۔ انہوں نے اپنے قلم سے فطرت کی تصویر کشی شروع کر دی کرونا کے باعث 2015 میں اسکردو کا سفر آخری تھا مگر انہوں نے 2022 سے اپنا سفر نامہ لکھںا شروع کردیا عبدالباسط صاحب کو اپنے اس سفرنامے کا عنواں بھی سردی کی شام جھیل سیف الملوک پر ملا جہاں انہوں نے تصور میں چاند کو جھیل میں ڈوبتے دیکھ کر یہ گیت گنگنانا شروع کر دیا کہ رات کی ھتھیلی پر چاند جگمگاتا ہے اس کی نرم کرنوں میں تم کو دیکھتا ہوں تودل دھڑک سا جاتا ہے دل دھڑک سا جاتا ہے تم کہاں سے آئی ہو ؟ کس نگر کو جاؤ گی سوچتا ہوں میں حیراں چاند جیسا یہ چہرہ رات جیسی زلفیں یہ جگائیں سو۔ ارماں اک نشہ سا آنکھوں میں دھیرے دھیرے چھاتا ہےرات کی ھتھیلی پر چاند جگمگاتا ہے

May 30, 202311:04
کتاب اور صاحبِ کتاب ـ خواجہ رضی حیدر

کتاب اور صاحبِ کتاب ـ خواجہ رضی حیدر

خواجہ رضی حیدر صاحب ایک ممتاز ادیب صحافی اور محقق ہیں جن کی شناخت ان کی قاید اعظم شناسی ہے ۔ آپ تقریبا 27 سال تک قاید اعظم اکیڈمی سے وابستہ رہے جہاں انہوں نے ریسرچ اسکالر سے لے کر ادارے کی سربراہی تک مختلف مختلف ذمہ داریاں سنبھالیں۔ آپ کا تعلق ایک بزرگ محدث سورتی کے خانوادے سے ہے جن پر کئی برسوں کی تحقیق کے بعد آپ نے " تذکرہ محدث سورتی " کے نام سے کتاب لکھی اور آپ کے والد نے تحریک پاکستان سے قبل بھی قیام پاکستان کے لیئے جدوجہد کی اور پاکستان بننے کے بعد بھی وہ مسلم لیگ کے فعال کارکن کے طور پر کام کرتے رہے

رضی حیدر صاحب ممتاز صحافی اور ادیب بھی ہیں روزنانہ حریت سے وہ تقریبا سال وابستہ رہے جس کے بعد انہوں نے قاید اعظم اکیڈمی میں خدمات انجام دیں ۔ آپ کے مختلف موضوعات پر کئی سیکڑوں مضامین اور کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں جس میں زیادہ تر قاید اعظم کے بارے میں۔ ان کی تحریریں ہے ٹیلی ویژن پر بھی آپ نے قاید اعظم پر 13 قسطوں پر مشتمل ایک سیریز کا اسکرپٹ لکھا جس کی خاص بات یہ تھی کہ اس اسکرپٹ کا ایک ایک سطر پر خواجہ صاحب نے بہت عرق ریزی سے جستجو کی تھی اور کوئی ایک بھی غیر مصدقہ روایت اس ڈرامے کے اسکرپٹ کا حصہ بننے نہیں دی

ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ قائد اعظم اکیڈمی سے 27 برس کا تعلق خواجہ صاحب کی قاید اعظم سب عقیدت کا سبب نہیں بنا تھا بلکہ انہوں نے شریف المجاہد صاحب کے کہنے پر صحافت کا شعبہ ترک کرکے قاید اعظم اکیڈمی کا حصہ بنے ورنہ قاید اعظم پر ان کی پہلے کتاب " قاید اعظم کے بہتر سال " کا پہلا ایڈیشن 25 ,دسمبر 1976 کو شائع ہوا یہ کتاب بہت مقبول ہوئی اس کے سات سے زیادہ ایڈیشن شائع ہوئے جب ک قاید اعظم اکیڈمی میں بطور ریسرچ۔ اسکالر اپنی خدمات کا آغاز کیا قاید اعظم کے ساتھ ساتھ انہوں نے راجہ صاحب محمود آباد پر بھی ایک تحقیقی کتاب لکھی اور چوہدری رحمت علی پر آپ کی کتاب چودھری رحمت علی تاریخ کے آئنے میں قلمبند کی

خواجہ رضی حیدر صاحب۔ ایک بہت عمدہ شاعر بھی ہیں اور آپ کے کلام کا مجموعہ بے دیار شام کے نام سے شائع ہوچکا ہے

خواجہ رضی حیدر صاحب شاہ محی الحق فاروقی اکیڈمی تشریف لائے تو ان سے کتاب اور صاحب کتاب کے عنوان سے بہت عمدہ گفتگو رہی ملاحظہ کیجیئے اس گفتگو کی ریکارڈنگ 44 منٹ کی اس وڈیو میں۔

 

May 27, 202344:29
م ص ایمن سے گفتگو

م ص ایمن سے گفتگو

محمد صالح ایمن صاحب ایک معروف ادیب ہیں اور م ص ایمن کے قلمی نام سے اب تک نو ناول لکھ چکے ۔ انہوں نے اپنی اپنی زندگی کی دلچسپ کہانی سنائی " ذکر کتاب " کو اس انٹرویو میں ۔ چوالیس منٹ کے اس انٹرویو میں م ص ایمن صاحب نے اپنے بچپن کے کئی قصے بہت مزے لے لے کر سنائے اور بتایا کہ انہیں کہانیاں اور کتابیں پڑھنے کا شوق تیسری جماعت سے ہی ہوگیا تھا جب وہ کلاس میں چھپ چھپ کر وہ کتابیں پڑھا کرتے تھے جو ان کا ایک دوست لائبریری سے کرائے پر لے کراتا تھا ناولوں نگار نے بتایا کہ کتابیں پڑھنے کے اس شوق میں ان کا وہ دوست تیسری کلاس میں فیل ہو گیا تھا اپنی زندگی کے کئی گوشوں کو بے نقاب کرتے ہوئے م ص ایمن صاحب نے بتایا کہ انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ٹیلرنگ سے شروع کا کئی فنون میں۔ مہارت حاصل کی پھر انہوں نے شہرت حاصل کی بطور ایک ا چھے بڑھئی کی ہو گئی جس ہنر میں انہوں نے کمال فن حاصل کیا کئی ایوارڈ حاصل کیئے ایمن صاحب نے بتایا کہ وہ ایک زمانے جمعہ بازار میں ہفتے میں ایک دن ٹھیلہ بھی لگاتے تھے جس پر ہر مال دو روپے کے حساب سے بیچ کر وہ دن بھر میں اتنا کما لیتے تھے کہ شام کو روپے گننے کا انہیں وقت بھی نہیں ملتا تھا ۔ م ص ایمن صاحب نے ۔بتایا کہ جب انہیں لکھنے لکھانے کا شوق ہوا تو ان کی تحریر ایک معروف ہندوستانی جریدے میں دیکھ کر پاکستان کے ایک ادبی رسالے والے فرمائش کی کہ ان کے لیئے بھی کچھ لکھیں مگرا مسودہ منگوانے کے بعد بجائے انہیں معاوضہ دینے کے بجائے الٹا ان سے تیس ہزار روپے مانگے کہ ہم آپ کو مشہور کر دیں گے ۔ ایمن صاحب نے بتایا انہیں بہت حیرت ہوئی جب ان کے ایک ناول کو کسی نے نہ صرف یہ کہ پوری قیمت ادا کرکے خریدی بلکہ ساتھ میں انہیں عیدی بھی دی 44 منٹ کے اس طویل انٹرویو کے آخری پچیس منٹ انہوں نے کتابی دنیا کے مسایل پر کھل کر بات کی ایمن صاحب نے بتایا کہ پبلشرز اور بک سیلرز۔ مصنفین پر کتنا ظلم کرتے ہیں کہ ان کی کتابیں 60 سے لے کر ،65 فیصد ڈسکاونٹ پر ادھار خریدتے ہیں مگر مصننف کو بقیہ 35 سے چالیس فیصد کی ادائگی میں بھی تنگ کرتے ہیں پورا حساب نہیں دیتے ہیں اور مانگو تو وہ کتابیں بھی واپس نہیں کرتے ہیں جنھیں بقول ان کے اسٹاک میں موجود کتابوں کے ڈھیر میں تلاش کرنا مشکل ہوتا ہے ناول۔ایمن صاحب کا کہنا ہے کہ مصنف کو کتاب لکھ کر اتنے پیسے بھی نہیں ملتے ہیں کہ وہ اپنا گھر چلا سکے یو ٹیوب ڈیسکریپشن میں ٹائم اسٹمپ لگا ہوا ہے جسے پریس کر کے آپ مطلوبہ گفتگو کو آسانی سے سن سکتے ہیں .

May 26, 202344:04
دکن کی غیر مطبوعہ تاریخ

دکن کی غیر مطبوعہ تاریخ

ہاں میں انکاری ہوں ،ظفر شروانی – پلےلسٹ لنک

https://youtube.com/playlist?list=PLW8_69-eTJUvibBy6Xi5sQQOI-glzKN1j

دکن کی غیر مطبوعہ تاریخ 30 منٹ کا لنک

https://youtu.be/T7jvOoL9Oy4

بالعموم  کتابوں  کے تعارف  اور پزیرای  کی تقریب  کتابوں  کی اشاعت  کے بعد ہوتی ہے مگر شاہ محی الحق فاروقی  اکیڈمی  کو یہ اعزاز  حاصل  ہے کہ ہائی  کورٹ کے سابق  جج  جناب ظفر شروانی صاحب  کی آپ بیتی    " ہاں میں انکاری   ہوں" کے  بعد ایک دوسری کتاب پر علمی حلقوں   کی توجہ اشاعت سے پہلے ہی  مبذول  کروائی   اور وہ تھی  "دکن کی غیر مطبوعہ تاریخ  "جو تحریر  کی تھی آج سے سو سال قبل جناب قاضی محمد بدرالدین  صاحب  نے اور چار پانچ سال کی محنت  کے بعد ان کے پوتے جناب  قاضی مظہر الدین طارق صاحب نے۔

" ہاں میں انکاری  ہوں " اس لحاظ  سے منفرد تھی کہ اس کتاب  ٹرانسکرپٹ ظفر شروانی صاحب  نے ان انٹرویوز کی مدد سے تیار کیا جو  انہوں  نے شاہ محی الحق فاروقی اکیڈمی میں ریکارڈ کروائے تھے  جس سے اس آپ بیتی کےبارے میں لوگوںں اتنا  اشتیاق پیدا ہوا کہ جب یہ طبع ہوئی تو اس کے دو ایڈیشن شائع  ہو گئے اور" دکن  کی غیر مطبوعہ تاریخ کے"بھی ہم نے پرنٹنگ  سے قبل یہ  1000 روپے دے کر بک کروالی تھی اور تھی قاضی مظہر الدین صاحب   سےسے ان کی کتاب کر گفتگو  کا  ایک پروگرام ریکارڈ  کر کے گروپ پر ڈالا  جس کا  دورانیہ 30 منٹ  تھا  اس پروگرام سے کتاب  کے بارے میں لوگوں  میں کافی دلچسپی  پیدا ہوگئی  اب یہ کتاب شائع  ہو گئی  ہے مگر اس کی قیمت بڑھ کر 1500 روپے ہو گئی  ہے  قاضی صاحب  نے پری بکنگ کروانے والوں کی یہ کتاب  1000 روپے میں بھیجی  ہے ملاحظہ کیجئے اس کتاب پر ایک مختصر  تعارف ، تفصیلی تعارف اپ پہلے ہی سن چکے ہیں جس کا تعارف  اوپر  دیا ہے

کتاب خریدنے کے لیے رجوع کریں

تھر بکس پبلیکیشن سروس

03302573941

May 23, 202311:08
فیلڈ مارشل محمد ایوب خان بنگلہ دیش کے معمارحقیقی

فیلڈ مارشل محمد ایوب خان بنگلہ دیش کے معمارحقیقی

بنگلہ دیش کے معمار

بنگلہ دیش آج دنیا میں ایک مضبوط مسلم معاشی طاقت اور ملک بن کر ابھرا ہے اکثر لوگ بنگلہ دیش کی آزادی کا سہرا مکتی باہنی اور ہندوستان کے سر باندھتے ہیں جب کے حقیقت اس کے برعکس ہے ایک ایسے وقت میں جب بنگلہ دیش کا پورا انفرا اسٹریکچر سڑکیں پل عمارتیں زراعت صنعتی اور تجارتی مراکز 70 کے سمندری طوفان اور 71 کی خانہ جنگئ کے باعث باکل تباہ ہو چکے تھے، بنگلہ دیش نے انفرا اسٹریکچر کیبحالی کے بہانے بھی ہندوستان کی فوج کو بنگہ دیش میں رکنے کی اجازت نہیں دی اور آزادی ملنے کے 90 دن سے کم مدت میں یعنی 12 مارچ کو 1972 کو آخری ہندوستانی سپاہی کو واپس ہندوستان بھیج دیا پھر اپنے زور بازو سے بنگلہ دیش کو اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بنگالی پاکستان سے الگ نہیں ہونا چاہتے تھے مگر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے ان میں شعور پیدا کیا کہ ان کو اپنا الگ ملک بنا لینا چاہیے - اس بات کی گواہی ان دو لوگوں نے اپنی کتاب میں دی ہے جن کا تعلق پنجاب سے تھا اور جو ایوب خان کے معتمد ترین ساتھیوں میں سے تھے ان میں سے ایک تھے الطاف گوہر جنجوعہ ایک سینیر بیوروکریٹ ایوب خان کے دور میں وہ انفارمیشن سیکریٹری تھے اور انہیں لکھنے لکھانے پر بہت عبور حاصل تھا اس لیۓ وہ ایوب خان کے قریب ترین ساتھیوں سے تھے اورکہا یہ جاتا ہے بھی الطاف گوہر صاحب نے ایوب خان کی آپ بیتی فرینڈز ناٹ ماسٹرز لکھی تھی دوسری گواہی ایوب خان کی کابینہ کے ایک وزیر اور سابق جسٹس منیر صاحب نئ اپنی کتاب فرام جن کی وجہ شہرت بطور جج نظریہ ضرورت پر ان کا فیصلہ تھا اس ویڈیو کلپ میں دونوں کتابوں کے اقتباسات شامل ہیں جنہیں سن کر آپ اپنا نتیجہ آپ خود اخذ کر سکتے ہیں۔

May 20, 202312:46
وزنی شعراکی مہمل اور بے وزن شاعری

وزنی شعراکی مہمل اور بے وزن شاعری


"وزنی شعرا کی مہمل اور بے وزن شاعری"  پچیس  منٹ کی اس ویڈیو میں شاعری کے ارتقا کا ہلکےپھلکے اور لطیف انداز میں جائزہ لیا گیا ہے ۔  

 اس ویڈیو میں احوال دیاہے کہ شاعری   کیسے ندرت خیال سے ہوتی ہوئی اس حال کو پہنچی کہ روٹی روزی کی تلاش میں شاعروں کا کام جگاڑی مستریوں والا ہوگیا پھر انہیں دھنیں بنا کر دی جانے لگیں  کہ کفن تیار ہے سائز کا مردہ لے آئیے یعنی اس دھن پر گیت لکھیئے اور اس کی مثال تبصرہ نگار نے  قومی ترانے سے دی   جس پر   ابصار احمد صاحب  عقیل عباس جعفری صاحب   اور  عابد علی بیگ  صا حب  نے کتابیں  لکھیں  کیونکہ اس پر بحث ہوتی  رہتی ہے کہ ہماراقومی ترانہ ہے کس زبان  میں اکثر  لوگوں کہنا  ہے کے یہ  کہ قومی ترانہ فارسی الفاظ  پر مشتمل  ہے اور اس میں  صرف ایک لفظ"  کا ' ہی اردو کا  ہے عابدعلی بیگ نے اپنی کتاب میں قومی ترانے  کےفارسی زبان میں  ہونے  کی  بھرپور تردید کی  اور  کہا  کہ یہ فارسی زبان کا ترانہ  کیسے ہو سکتا  ہے 40 الفاظ کے اس  ترانے  میںساٹھ  فیصد عربی الفاظ ہیں ساڑھے  سینتیس فیصد فارسی الفاظ اور 2.5 فیصد سنسکرت لفظ استعمال ہوئے ہیں  آپ سوچیں  گے کہ اردو  کہاں گئی 

اسی بات پر تو عابد صاحب نے یہ پوری کتاب لکھی  ہے جس میں انہوں   مثالیں دے کر ثابت کیا کہ عربی فارسی اور سنسکرت کے الفاظ  ہیں  توکیا ہوا  یہ   چالیس کے چالیس نسخے الفاظ اردو میں مستعمل ہیں ویسے اصل بات وہی ہے جس کی طرف عقیل عباس جعفری صاحب نے اشارہ کیا ہے کہ پہلے کریم چھاگلہ صاحب کی دھن تیارکی  پھر ایک مقابلے  میں  سیکڑوں پاکستانی شاعروں کو  وہ دھن  سنائیگئی کہ اس دھن پر ترانے کے لیئے   میں  شاعری کے الفاظ ڈال دو حفیظ جالندھری صاحب  نے دھن کی مناسبت سے ایسے الفاظ چنے  کہ وہ  سب پر بازی لے گئے اسویڈیو میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ کس طرح ہندوستانی شاعرات نے شاعری کو سننے سے زیادہ دیکھنے کی  چیز بنا دیا ہےاور  ان کی ساری شاعری پر  محض ساڑھی شاعری بن کر رہ جاتی ہے اس بات کا بھی تبصرہ نگار نے  ذکر کیا  ہے کہ کیسے بعض شعرا نے آزاد شاعری کو ہر قسم کیعروض کی بندش سے آزاد کرکے مادر پدر آزاد شاعری کی صنف کو رو شناس کردیا ہے ۔ تبصرہ نگار کا کہنا ہے کہ ان شاعروں سے انتقام کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کیاصلاح کرنے کے بجائے ان  کی تعریفیں کر  کر کے  انہیں دیوان چھپوانے کے لیئے راضی کیا جائے ہ اس سے بڑی  سزا  ان شاعروں کو دی نہیں  جاسکتی  ہے یوں بھی  اگر کوئ چینی سے مرتا ہو تو اس چینی ہیں سے ماریں زہر دے کر نا ماریں تبصرہ نگار نے شاعروں  کی  اصلاح کرنے سے اس لیئے منع کیا ہے کہ بعض اوقاتکچھ نا جاننا بھی  رحمت  اور جان بخشی کا سبب بن جاتا  ہے جیسے شہنشاہ جہانگیر نے ایک شاعر کی جان بخشی یہ کہہ کر کہ چونکہ تجھے شاعری میں۔ عروض کا پتا نہیں ہے اس لیئے اس بار تمہاری جان بخشی کردی ہے ورنہ جان سے مار دیتا آخر میں تبصرہ نگار نے ساقی فاروقی کی کتاب آپ بیتی پاپ بیتی سے ایک دلچسپ  واقؑعے کی  تفصیل بتائی ہے عزیز حامد مدنیکا شعر وزن میں ہے یا نہیں اس بات پر ایک بار شاعروں  میں  بحث اتنی تلخی تک پہنچی کہ ساقی فاروقی نے ایک زور دار طمانچہ مجتبی حسین کے منہ پر  جڑ دیاپھر بھی غصہ نا اترا تو مجتبی حسین کو دھمکی دی کہ تمارا جو بیٹا میری پاس پڑھتاہے میں اسے امتحان میں فیل کر دوں گا

May 16, 202325:11
وزنی شعراکی مہمل اور بے وزن شاعری

وزنی شعراکی مہمل اور بے وزن شاعری

وزنی شعراکی مہمل اور بے وزن شاعری

May 09, 202325:11
کتابوں کی اشاعت کے مسائل

کتابوں کی اشاعت کے مسائل

محترم سید معراج جامی صاحب کی ذات کسی تعارف کی محتاج نہیں-آپ ایک اچھے شاعر اچھے ادیب ہیں کتابوں سے بہت محبت کرتے ہیں ان کے نجی لائبریری میں کتابوں کا بڑا ذخیرہ ہے جس میں کئی نایاب کتابیں بھی موجود ہیں

جامی صاحب حلقہ احباب ذوق گلشن معمار کی ہفتہ وار نشست میں مشہور شاعر قمر جمیل صاحب کو خراج تحسین پیش کرنے شاہ محی الحق فاروقی اکیڈمی کی لائبریری میں تشریف لئے اس موقع پر انہوں نے ذکر کتاب سے کتابوں کی اشاعت کے مسایل پر مختصر گفتگو کی جامی صاحب چونکہ ادیب اور شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ کتابوں کی اشاعت سے بھی وابستہ ہیں اس لیئے انہوں نے مصنفین کی ناشرین کے بارے میں شکایتوں پر تصویر کا دوسرا رخ بھی پیش کیا ۔

یہ گفتگو تشنہ رہ گئی کیونکہ قمر جمیل صاحب پر پروگرام میں شرکت کے لیئے دیگر مہمانان گرامی آنے شروع ہو گئے تھے امید ہے جلد ہی جامی صاحب سے اس موضوع پر ایک اور ایک اور نشست ہوگی تاکہ بقیہ نکات پر بھی تفصیلی گفتگو ہو سکے۔

May 08, 202308:00
زندگی سے انتخآب احمر حسن

زندگی سے انتخآب احمر حسن

زندگی سے انتخآب احمر حسن

May 05, 202303:52
پیچ و تاب ِ زندگی

پیچ و تاب ِ زندگی

پیچ و تاب زندگی بریگیڈیر ریٹایرڈ صولت رضا صاحب کی تصنیف ہے ۔ صولت رضا صاحب نے پنجاب یونیورسٹی سے صحافت میں ایم اے کرنے کے بعد ایک ایسے وقت میں فوج میں کمیشن لیا کہ جب سقوط ڈھاکہ کے باعث فوج کا مورال بہت نیچا تھا اور نوجوانوں میں بھی فوج میں شمولیت کی کوئی امنگ نہیں تھی 1971 کی شکست کے بعد فوج میں شرکت کرنے والوں میں۔ کرنل اشفاق حسین شامل تھے جو صولت رضا صاحب کی طرح صحافت کی ڈگری رکھتے تھے تیسرے فرد سہیل پرواز تھے ایک نامور ادیب اور صحافی الطاف پرواز کے بیٹے اور خود بھی لکھنے لکھانے کے شوقین اور یہ تینوں فوج کے میڈیا ونگ سے وابستہ رہے اور نامساعد حالات میں۔ بھی فوج کا امیج بڑھاتے رہے ۔ یہاں تک کے اپنے مضامین اور اپنی کتابوں سے نوجوانوں میں ایک بار پھر فوج میں شامل ہونے کا جذبہ بیدار کیا صولت رضا صاحب نے لکھنے لکھانے کا آغاز ایک چھوٹے سے واقعے سے کیا کہ جب ایک۔ چھوٹے سے بچے نے انہیں یونیفارم میں دیکھ کر سلوٹ مارا تھا جواب میں۔ صولت رضا صاحب نے بھی اسے سلوٹ مارا اس چھوٹے سے واقعے کو انہوں نے کچھ اس خوبصورت انداز میں تحریر کیا کہ جب وہ الہلال میں چھپا تو بہت مقبول ہوا اور مزید تحریروں کی ان سے فرمائش ہوئی صولت رضا صاحب نے فوج میں بہت بھرپور زندگی گزاری انہوں نے بہت مشکل وقتوں میں کراچی بلوچستان میں خدمات انجام دیں بلکہ وہ فوجی خدمات مہیا کرنے بوسنیا اور کروشیا بھی گئے اس لیئے پیچ و تاب زندگی میں ان کی زندگی کے ایسے بہت سے واقعات پڑھنے کا ملتے ہیں جو انوکھے بھی ہیں اور بھیانک بھی اگر بات سوہل ملٹری کشمکش کی ہو یا کارگل کی جنگ کی صولت صاحب آج بھی ہمیں حاضر ڈیوٹی فوجی ترجمان نظر آتے ہیں جن کے لیئے آج بھی سب کچھ فوج کا وقار ہے

اس ویڈیو کے خاص خاص موضوعات ہیں آپ ٹایم اسٹمپ لنک کر پریس کر کت براہ راست سن سکتے ہیں

Timestamps-

00:00

03:00 اکہتر کی شکست کے بعد پیشہ ور صحافیوں نے فوج کو مورال بڑھایا

04:21یونیورسٹی میں صحافت کی تعلیم کھیت میں سائکل ہاتھ میں پکڑ کر

06:30 شہرت ملی بچے کے ایک سلوٹ سے

07:05 کتا دوڑ میں نیلی واسکٹ والا آگے

10:10 زخمی گورنر کو دیہاتیوں نے ٹریکٹر ٹرالی پر اسپتال پہنچایا راستے میں انہیں ہلدی تیل پلاتےرہے

11:20 مسجد کی جگہ ویک اینڈ میوزک نایٹ کلب بنوا دیا

13:10 کراچی میں فوج کی نگرانی میں طلبہ تنظیموں کے پاس بدترین تشددد کا شکار قیدیوں کا باہمی تبادلہ

16:40 ایوب خان اور یحیی خان دونوں دہلوی تھے

17:46 فوج کو بدنام کرنے کے لیئے بھٹو صاحب نےھتیار ڈالنے کے کلپ چلوائے

18:20 کارگل پر پرویز مشرف نے نواز شریف کواعتماد میں لے کر کیا تھا

18:46 کارگل میں پاکستان کی شکست ہوئی اسباب کیا تھے تبصرہ نگار کا تجزیہ

21:30 بری فوج میں صرف تین لوگوں کارگل آپریشن پر اعتماد میں نہیں لہا گیا – تبصرہ نگار

23:33 فضایہ کے آپریشن سفید ساگر نے کارگل کی جنگ کا نقشہ پلٹ دیا تبصرہ نگار

26:33 پرویز مشرف بھی یہ لطیفہ سن کر ہنسے ہو ں گے کیونکہ اتنے بھولے نہیں تھے – تبصرہ نگار

May 04, 202327:59
سید قاسم محمود ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی

سید قاسم محمود ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی

شاہ محی الحق فاروقی اکیڈمی کے نئے سلسلے "یہ ہے کمپیوٹر کی آواز " کا پہلا پروگرام سید قاسم محمود ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی- یہ مضمون تحریر کیاہے محترم عقیل عباس جعفری صاحب نے – آپ لوگوں کی رائے کا انتطار رہے گا جس سے ہمیں اس پروگرام کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔

May 03, 202312:43
اردو کو نادان دوستوں سے بچائیے

اردو کو نادان دوستوں سے بچائیے

آج کل ایک رجحان بن گیا ہے کہ انگریزی کے ان الفاظ کو ، جو زباں زد عام ہیں ایسے مشکل اور نامانوس فارسی اور عربی اصطلاحات اور الفاظ سے تبدیل کر دیا جاٰے جو عام فہم نہیں ہے - جس کا مطلب سمجھنے کے لیئے کسی دانشور سے مدد لینی پڑے ۔ محمد اظہار الحق صاحب اردو کے ایک معروف ادیب اور کالم نگار ہیں آپ کے کالموں کو ان کے شگفتہ طرز تحریر تصنع سے پاک برجستہ انداز بیان کے باعث پسند کیا جاتا ہے- اظہار صاحب نے اپنے ایک کالم " اردو کو نادان دوستوں سے بچاٰیئے " یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ انگریزی کے ان الفاظ کو جن کا مطلب ہر شخص باآسانی سمجھ لیتا ہے زبر دستی مشکل اور نامانوس فارسی اور عربی الفاظ سے بدلنے کی کوشش کرنا اردو کی دوستی نہیں ہے بلکہ اردو سے دشمنی ہے آیئے جو اردو کے نادان دوست کر رہے ہیں۔ آۓ ان کا کالم سنتے ہیں "اردو کو نادان دوستوں سے بچائیے"

May 01, 202309:27
اردو بولی اور اردو زبان کا پس منظر

اردو بولی اور اردو زبان کا پس منظر

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اردو برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی زبان ہے جب کے حقیقت یہ ہے کہ اس خطے میں مسلمانوں کا مذھبی ذریعہ تعلیم عربی تھا جس کے فارغ التحصیل مولوی فاضل کہلاتے تھے اور ان کی سرکاری زبان فارسی تھی جس کے فارغ التحصیل منشی فاضل کہلاتے تھے اردو صحافت کی تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ خطے میں اردو صحافت کا آغاز بنگال کے ہندو صحافیوں اور مالکان اخبار نے کیا تھا اور اردو کا پہلا اخبار جام جہاں نما صرف چھ شماروں کی اشاعت کے بعد دوبارہ فارسی زبان میں اس لیے منتقل کرنا پڑا کہ اردو پڑھنے والے نہیں تھے ۔ اکثر لوگ زبان کو (جو تحریر کی جاتی ہے اور پڑھ کر سمجھی جاتی ہے) گڈ مڈ کر دیتے بولی سے اور بولی وہ ہوتی ہے جو بولی جاتی ہے اور سن کر سمجھی جاتی ہے ۔اردو زبان اس خطے میں نا تو عرب یا ترک یا اہل فارس اپنےساتھ لائے نہ اس خطے میں سے کسی کی بھی زبان اردوتھی ہاں یہ بہت میٹھی بولی تھی جس نے مختلف زبان اور ثقافت کے باہمی اخلاط سے جنم لیا تھا۔جسے ہندوستان کے ہر طبقے کے لوگ سن اور سمجھ لیتے تھے اور بلاشبہ یہ بولی اس خطے کی Lingua Franca تھی مسئلہ صرف اتنا ہوا کہ کہ ہندوستان میں بولی جانے والی اس بولی کا نام ہندوستانی بولی تھاجو مسلمانوں کو قابل قبول نا تھا جب کہ کئی بار مسلمان دانشوروں ( بشمول مولانا سید سلیمان ندوی ) نے یہ بات سمجھائی کہ زبان کا نام بالعموم اس علاقے سے منسوب ہوتا ہے جہاں وہ بولی جاتی ہے عرب لوگ عربی بولتےہیں بنگال کی زبان بنگالی ہی اور فرانس میں فرانسیسی بولی جاتی ہے ہم ہندوستان میں بولی جانےزبان کا نام ہندوستانی رہنے دیں کوئی فرق نہیں پڑتا ہے مگر یہ بات مسلمانوں کو قابل قبول نہیں تھی چونکہ ہندوستانی بولی کا کوئی رسم الخط نہیں تھا اور ہندی اور اردو کابھی کوئی اس لیئے انگریزوں نے فورٹ ولیم کالج میں اس ہندوستانی بولی کو فارسی رسم الخط میں لکھ کر اردو کہا اور دیوناگری رسم الخط میں لکھ کر اسے ہندی کا نام دیا اور درجنوں ملازمین کا تقرر کیا کہ وہ اردو اور ہندی رسم الخط میں کتابیں لکھنی شروع کریں اس کے بعد ہی تو اردو نثری ادب کا آغاز ہوا فورٹ ولیم کالج سے پہلے کے پانچ اردو مطبوعہ ناولوں کے نام پوچھے جائیں تو آج کسی کو معلوم بھی نہیں ہوگا

Apr 30, 202313:34
مکس پلیٹ - ظفر عالم طلعت

مکس پلیٹ - ظفر عالم طلعت

ظفر عالم طلعت کی مکس پلیٹ میں سب ہی کچھ تو ہے ان کے بچپن کا وہ چلبلا پن ، کہ لوگ ان کے والد سے ہوچھتے تھے کہ یہ بچہ نو مہینے ماں کے پیٹ میں کیسے رہ گیا بڑے ہو کر ان کی وہ سنجیدگی اور بردباری کہ بچے انہیں جمیعت کا "کارٹون" کہتے تھے جس دور میں وہ کراچی کے شعلہ بیان مقرر اود کراچی یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹ لیڈر تھے اس دور میں جمیعت کے ناظم کا انتخاب اور اس کی تربیت کا معیار بڑا سخت تھا ایک زیر تربیت ناظم جمیعت کے بارے میں مکس پلیٹ میں لکھا ہے کہ انہوں نے گھر گھر رابطے کی مہم میں اتنا گھگھیا کر جمیعت کا تعارف کروایا کہ کواڑ کی آڑ سے ایک نسوانی ہاتھ باہر نکلا جس میں روٹی اور روٹی پر تھوڑا سا سالن رکھا تھا ۔ یہ کتاب لکھنے کی حوصلہ افزائی جن لوگوں نے کی ان میں سے ایک شخص ایسا بھی ہے جس نے خود زندگی میں کوئی کتاب نہیں لکھی اس کتاب کی تکمیل کا سہرہ ظفر عالم طلعت صاحب نے اپنی بیگم کے سر ڈالا ہے حالانکہ بیگم کے حق میں ظفر کی گواہی قانون کی اصطلاح میں ان کا Undue influence لگ رہی ہے اس لیئے قابل قبول نہیں ان کی بیگم کو اگر کوئی کریڈٹ جاتا ہے تو صرف اتنا انہوں نے ساری عمر ڈانٹ ڈانٹ کر ظفر کو اس کے مقام پر رکھا ظفر بڑی حسرت سے لکھتے ہیں کہ وقت بدل گیا انداز بدل گئے الفاظ بدل گئے مگر بیگم کی ڈانٹ نہ بدلی ظفر لکھتے ہیں کہ جب وہ برسرروزگار تھے تو بیگم کہ ڈانٹ کا انداز اور تھا ریٹائرمنٹ کے بعد ڈانٹ برقرار رہی صرف نئے الفاظ کا اضافہ ہو گیا اس تبصرے میں تبصرہ نگار نے ظفر کی زندگی کے ان دو اہم ترین واقعات کا ذکر کیا ہے جو خود ظفر کتاب میں شامل کرنا بھول گئے تھے۔ پہلا وہ کہ جب انہوں نے الطاف حسین کو پولیس کی گرفتاری سے بچانے کے لیئے ایک رکن جماعت اسلامی کے گھر میں روپوش کروایا تھا اور دوسرا وہ جب انہوں نے ایک کیو ایم کےایک لیڈر کے ذریعہ عامر خان سے رابطہ کر کے ناظم آباد نمبر 1 میں جماعت اسلامی والوں کے گھر کے اطراف سے وہ مسلح کارکن ہٹوائے جو جان سے مارنے کی دھمکی دے کر انہیںں گھر کو خالی کرکے محلہ چھوڑنے پر مجبور کر رہے تھے جان بچانے کے لیئے ساماظفر عالم طلعت کی مکس پلیٹ ، سب ہی کچھ ہی تو ہے ان کے بچپن کا وہ چلبلا پن ، کہ لوگ ان کے والد سے ہوچھتے تھے کہ یہ بچہ نو مہینے ماں کے پیٹ میں کیسے رہ گیا بڑے ہو کر وہ اتنے سنجیدہ اور بردبار ہوگئے کہ ان کی شناخت اسلامی جمیعت طلبہ کا "کارٹون" ہو گئی ایک زیر تربیت ناظم جمیعت نے گھر گھر رابطے کی مہم میں اتنا گھگھیا کر جمیعت کا تعارف کروایا کہ کواڑ کی آڑ سے ایک نسوانی ہاتھ نکلا جس میں روٹی اور روٹی پر تھوڑا سا سالن رکھا تھا ۔ یہ کتاب لکھنے کی حوصلہ افزائی جن لوگوں نے کی ان میں سے ایک شخص ایسا بھی ہے جس نے خود زندگی میں کوئی کتاب نہیں لکھی اس کتاب کی تکمیل کا سہرہ ظفر نے اپنی بیگم کے سر ڈالا ہے حالانکہ بیگم کے حق میں ظفر کہ گواہی قانون کی اصطلاح میں ان کا Undue influence لگ رہی ہے اس لیئے قابل قبول نہیں شادی سے پہلے اور شادی کے بعد ظفر کی تحریروں میں کیا فرق آیا وہ اس کتاب سے صاف ظاہر ہے۔ وقت بدل گیا الفاظ بدل گئے بیگم کی ڈانٹ نہ بدلی ظفر لکھتے ہیں کہ جب وہ برسرروزگار تھے تو بیگم کہ ڈانٹ کا انداز اور تھا ریٹائرمنٹ کے بعد ڈانٹ برقرار رہی الفاظ بدل گئے تبصرے میں ظفر اپنی زندگی کے وہ دو اہم ترین واقعات کو حافظے کی کمزوری کے باعث شامل کرنا بھول گئے پہلا وہ جب انہوں نے الطاف حسین کو پولیس کی گرفتاری سے بچانے کے لیئے ایک رکن جماعت اسلامی کے گھر میں روپوش کروایا تھا اور دوسرا وہ جب انہوں نے ایک کیو ایم کےایک لیڈر کے ذریعہ عامر خان سے رابطہ کر کے ناظم آباد نمبر 1 میں جماعت اسلامی والوں کے گھر کے اطراف سے وہ مسلح کارکن ہٹوائے جو جان سے مارنے کی دھمکی دے کر انہیںں گھر کو خالی کرکے محلہ چھوڑنے پر مجبور کر رہے تھے جان بچانے کے لیئے سامان نکال گھر خالی کرنے کے علاؤہ وہ کسی کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں تھے

Apr 28, 202324:46
تاریخ دکن –قاضی مظہر الدین طارق سے گفتگو

تاریخ دکن –قاضی مظہر الدین طارق سے گفتگو

کچھ عرصہ قبل ذکر کتاب کے چینل پر ہم نے ایک تعارفی پروگرام ڈالا تھا جو دکن کی غیر مطبوعہ تاریخ کے بارے میں ایک آنے والی کتاب کے بارے میں تھا آج یہ اس کتاب پر اس کتاب کو شائع کرنے والے قاضی مظھر الدین صاحب پر مکمل پروگرام ہے جس کا دورانیہ 30 منٹ ہے


اس کتاب کو تحریر کیا تھا حیدرآباد دکن کے ایک وکیل جناب بدرالدین صاحب نے جسے قلمی نسخے کی مدد سے کمپوز کر کے طبع کرونے کا اعزاز ملا ہے ان کے پوتے جناب قاضی مظھر الدین طارق صاحب کو


اس کتاب کے سلسلے میں ہم نے ذکر کتاب کے لیئے قاضی مظھر الدین صاحب کا تفصیلی انٹرویو ان کے گھر جا کر کیا جہاں ان کی لائبریری اور اس میں موجود قدیمی مخطوطات کو دیکھنے کا بھی موقع ملا قاضی مظہر صاحب خود کئی صلاحیتوں کے مالک ہیں وہ ایک اچھی ادیب بھی ہیں اور بہت اچھے آرٹسٹ بھی ہمیں ان کے گھر ان کی گیلری میں آیل پینٹنگ سے لے کر فائبر گلاس تک میں تیار کیئے ہوئے ان کے آرٹ کے نمونوں کو دیکھنے کا موقع ملا جس کی وہ کسی دور میں سولو نمائش کیا کرتے تھے قاضی صاحب کی اپنی چار کتابیں شائع ہو چکی ہیں جس میں بچوں کے ناول اور سائنس فکشن تک شامل ہیں ان کتابوں کی کمپوزنگ اور اس میں موجود تصویری خاکے اپنے ہاتھ سے بنا کر قاضی صاحب نے اپنے ہاتھ سے بنا کر اپنے ان بزرگوں کی یاد کو زندہ کر دیا جو اپنے مخطوطے اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے اور ان مخطوطوں میں رنگین تصاویر اپنے ہاتھوں سے بناتے تھے قاضی صاحب کے گھرانے کا پرانا تعلق علم و ادب سے ہے اگر ان کے قدیم بزرگوں کا ذکر چھوڑ بھی دیا جائے تو خود قاضی صاحب کتابوں سے محبت کرنے والوں اور کتابیں لکھنے والوں کی چوتھی پشت ہے یہ الگ بات کہ قاضی صاحب کے پرانے کتابیں وہ پڑھ نہیں سکتے ہیں کیونکہ وہ کتابیں فارسی زبان۔ میں تھی جس سے برصغیر کے مسلمانوں کی طرح خود قاضی صاحب کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے اور۔ وہ زبان اب متروک ہو چکی ہے ادب سے یہ رشتہ اگلی نسل کو بھی منتقل ہو چکا ہے ان کی بیٹی تنزیلہ حسن اور ان کے نواسے اور نواسیوں کی بھی کتابیں شائع ہوچکی ان کی کچھ بیٹیاں اگرچہ اردو میں بھی مضامین لکھتی ہیں لیکن دیکھا جائے تو تنزیلہ حسن نے اپنی انگریزی کتابوں سے شہرت پائی ہے نہ صرف یہ کہ ان کی اور ان کے بیٹوں کی کتابیں انگریزی زبان میں شائع ہوئی ہیں بلکہ تنزیلہ حسن نے جو اشاعتی ادارہ قائم کیا ہے اس کی وجہ شہرت بھی انگریزی زبان میں درجنوں کتابوں کی اشاعت ہے ۔ سچی بات ہے مجھے یہ بات عجیب سی لگی کہ جیسے قاضی طارق صاحب اپنے پردادا کے مخطوطے کو دکھا کر حسرت سے کہتے ہیں کہ کاش مجھے فارسی آتی مجھے نہیں معلوم کہ اس میں کیا لکھا ہے ۔کہیں ایسا تو نہیں چند پشتون کے بعد ان کی اولاد بھی ان کی کتابون کو دیکھ کر حسرت سے کہے گی کہ ہمیں کیا معلوم اس میں کیا لکھا ہے ہمیں اردو نہیں آتی مگر قاضی صاحب نے بتایا کہ ان کی بیٹی نے بہت سوچ سمجھ۔ کر یہ فیصلہ کیا ہے


اس نے انگریزی میں ناول سفرنامے بچوں کی کتابیں اور تربیتی لٹریچر اس لیئے تحریر کیئے اور دوسروں کی انگریزی میں لکھی بچوں کے لیئے کتابیں شائع کرنی شرو ع کی کہ وہ یہ سمجھتی ہیں کہ ہم چاہیں یا نا چاہیں ہماری نئی نسل کے بچے اب اردو سے زیادہ انگریزی کتابیں اور انگریزی ادب پڑھتی ہے ۔ بہت ضروری ہے کہ ان بچوں کو اپنی اقدار کے نزدیک رکھنے کے لیئے انگریزی زبان میں لٹریچر تخلیق کیا جائے تاکہ وہ مغربی لٹریچر کے زیر۔ اثر اپنی ثقافت اور اپنی روایات سے دور نا ہو جائیں ۔ بہت اچھا جذبہ ہے اللہ اس خاندان کو اپنے ارادوں میں کامیابی دے


تاریخ دکن ایک حیرت انگیز کتاب ہے تاریخ کے کئی گوشے اس میں بے نقاب کیئے گئے ہیں اس میں۔ حیدرآباد کے اس نظام کا بھی ذکر ملے گا جسے انگریزوں نے صرف اس لیئے کروادیا کہ وہ چھپ کر انگریزوں کے خلاف مغل حکمرانوں کی مدد کر رہے تھے چنانچہ ان کے قتل کے بعد ان کی جگہہ انگریزوں اس شخص کر نظام حیدرآباد بننے میں مدد دی جو انگریزوں کا وفادار تھا


اس کتاب کا انتظار کیجیئے

Apr 27, 202330:45
غالب کے جعلی خطوط

غالب کے جعلی خطوط

غالب کے جعلی خطوط

معروف ادیب اور مزاح نگار  جناب انور احمد علوی صاحب کی۔ کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں  ان کے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین کے مجموعے  خاکے ٫  سفر نامےاور مختلف ادیبوں کی  تحریروں سے انتخاب شامل ہیں ان کی کتابوں کے نام ہیں   

جملہ حقوق غیر محفوظ، غالب کا دستر خوان (جعلی خطوط )، مس گائیڈ، سود کے تعاقب میں، نامعلوم افراد، صحیح گئے ، سلامت آئے، بذلہ سنجان دو عالم، خواتین مزاح، پیٹ بھرے کی باتیں، مدیر ادنیٰ، بزم مزاح، اسراف باہمی، وسیلہ ظفر،

انکی کتابوں میں ایک نیا اضافہ حال  میں شائع ہونے والی کتاب کا نام ہے "سب اچھے ہیں "جو بقول انور صاحب انکے جو انکے مردانہ زنانہ اور بچکانہ شخصی خاکوں پر مشتمل ہے سود کے تعاقب میں ایک بہت دلچسپ خود نوشت ہے جس میں۔  بنکاری کی زندگی میں ان کے ذاتی تجربات بہت دلچسپ پیرائے میں بیان کیئے گئے ہیں ذکر کتاب کے یو ٹیوب چینل پر سود کے تعاقب میں  پر ایک تفصیلی تبصرہ موجود ہے وقت ملے تو اس تبصرے اور پھر کتاب دونوں کو پڑھ لیئے گا ۔ غالب کے جعلی خطوط بھی ان کی بہت دلچسپ تصنیف ہے آج پیش خدمت ہے غالب کے جعلی خطوط سے ایک انتخاب.

Apr 25, 202311:27
کتاب پڑھنے کے تیس فایدے

کتاب پڑھنے کے تیس فایدے

ایک عام خیال یہ ہے کہ کتابیں پڑھنا کوئی اچھی بات ہے لیکن حقیقت یہ ہے 


کہ کتابیں پڑھنے کے لئے اگر اچھی کتابوں کا انتخاب نہ کیا جائے تو بجائے فائدے کے نقصان کا اندیشہ بھی ہو سکتا ہے  


جب ہم کتابیں پڑھتے ہیں تو کبھی ہم ان سے بہت کچھ حاصل کرتے ہیں  اسے  ہم کماؤ مطالعہ کہتے ہیں 


مگر جب مطالعہ ان کتابون کا کیا جائے جو گھٹیا طریقے سے قاری کے جذبات کو بھڑکاتی ہوں یا کسی طبقے کی خلاف نفرت پھیلاتی ہوں تم ہم میں بھی منفی جذبات پیدا ہوتے ہیں جسے ہم گنواؤں مطالعہ کہتے ہیں  دیکھا جائے تو اکٹر لوگ زیادہ تر بغیر مقصد ذہن میں رکھے اوراق گردی شروع کر دیتے ہیں جس کا مقصد صرف وقت ٹالنا ہوتا ہے اسے ہم ٹالو۔ مطالعہ کہتے ہیں 


اس قسم کے مطالعہ کا حاصل وصول کچھ نہیں ہوتا صرف وقت کا ضیاع ہوتا ہے 


اس کلپ  میں کتاب پڑھنے کے تیس بڑے  فائدے اور دس بڑے نقصانات بتائے  گئے ہیں  کیونکہ اگر کتابیں پڑھنے میں ہمارا مقصد پہلے سے  واضح ہوگا تو یقینا ہم اس میں کچھ حاصل کر لیں گے لیکن اگر ہم صرف وقت ٹالنے کے لیے مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں نقصان ہی نقصان ہے

Mar 16, 202317:23
کچھ لوگ ، کچھ یادیں ،کچھ تذکرے

کچھ لوگ ، کچھ یادیں ،کچھ تذکرے

ایک عام خیال یہ ہے کہ چونکہ  لوگوں کو اردو میں امتحانات  خصوصا سرکاری ملازمت کے لئے اردو میں مقابلے کے امتحانات دینے کی اجازت نہیں ملتی ہے لہذا اردو دان طبقہ اچھی ملازمت سے محروم رہتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ معاملہ نہ اردو کا ہے نہ انگریزی کا 

بلکہ نظام تعلیم کچھ ایسا ہے کہ لوگوں کو نہ اردو آتی ہیں نہ انگریزی اور تحریری اظہار دونوں ہی زبانوں میں ان کے لئے کرنا ممکن نہیں شاید اسی لیے جو مقابلے کے امتحانات ہوتے ہیں اس میں امتحان پاس کرنے والوں کی تعداد پورے پاکستان میں صرف دو فیصد بلکہ اس سے بھی کم ہوتی ہے جبکہ یہ امتحانات دینے والے وہ ہوتے ہیں جن کا تعلق ان گھرانوں سے ہوتا ہے جنہوں۔ نے  سولہ سال تک اچھے  انگریزی اداروں میں تعلیم حاصل کی ہوتی ہے وہ  بھی پاس نہیں ہو سکتے ہیں 

اس عام خیال کے برعکس حقیقث یہ بھی ہے کہ  کہ اگر کسی کو اردو آجائے تو وہ اپنی فیلڈ میں بہت کامیاب رہتا ہے  فارن سروس  کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ فون سروس اس میں جانے والے لوگ اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ اس میں اچھی پوسٹنگ کی صرف ان لوگوں کو ملتی ہے جو  نیلی آنکھوں والے شہزادے ہوتے  ہیں آج میں اقتباس پیش کر رہا ہوں ایک ایسی کتاب  کا  جس میں کہانی ہے اس شخص  کی جس نے 35 سال سے زائد فارن سروس میں ملازمت کی بہت اچھی اچھی پوسٹنگ لی  پاکستان کے کئی سربراہان مملکت کے ساتھ مل کر کام بھی کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ فارن سروس  میری کامیابی کا راز یہ ہے کہ میری اردو بہت اچھی ہے یہ اردو کی کرامت جو کرامت اللہ غوری صاحب کے بیان کی ہے آئیے اس سنتے ہیں

ذکر کتاب یوٹیوب چینل کو سبسکرایب کرنے کے لیئے 

http://YouTube.com/c/zikrekitab?sub_confirmation=1

ذکر کتاب یو ٹیوب اور پوڈ کاسٹ چینلون کی تمام پوسٹوں کے لنکس کے لیئے  پریس کریں    https://rb.gy/hbcayf

Mar 12, 202315:59
خاکی سائے

خاکی سائے

فوج اور عدلیہ کے اعلی حکام میں ایک عجیب سا رشتہ پایا جاتا ہےء جس میں ایک دوسرے کے لیئے احترام بھی ہے اور اپنے پیشے کا احساس برتری بھی۔

خاکی سائے کے مصنف جنرل کے ایم عارف  صاحب کے انتقال کر سابق چیف جسٹس پاکستان جناب ارشاد حسن خان نے لکھا کہ

منقول

جنرل ضیاء خوش قسمت تھے کہ جنہیں میجر جنرل عارف کی زندگی بھر کی معاونت ملی ۔انہیں جنرل یحیٰی کے دور حکومت میں مارشل لاء آفیسر کی حیثیت سے کاروبارمملکت چلانے کا تجربہ تھاچنانچہ اس تجربے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل پر اُنہوں نے بحیثیت وائس چیف آف آرمی سٹاف ، بنیادی اوراہم کردار ادا کیا اور انہوں نے پیش آمد ہ معاملات و امور کو بہ حُسن و خوبی چلایا انہیں ایک بہت ہی اعلیٰ اور سخت فوجی آفیسر کے طور پر پہچانا جاتاتھا۔انہوں نے اپنے پورے کیرئیر میں کبھی بھی اپنے اخلاق اور اصول پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ انکی ممتاز خدمات کے پیش نظر ، انہیں ستارئہ بسالت اور دیگر بہت سے اعلیٰ سول اور فوجی ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا گیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے شاعری کی طر ف بھی توجہ مرکوز کی اوروہ اپنی ذاتی سوانح اور فوجی امور سے متعلق تصانیف کے مصنف کی حیثیت سے فوجی مورخ بن گئے۔وہ جنرل ضیاء الحق کے ساتھ سات سال تک رہے۔اس حوالے سے انہوں کتاب ـ"Working with Zia ul Haq"لکھی جو اس دور کی تاریخ کو اجاگر کرتی ہے۔اس کتاب میں جنرل کے ایم عارف نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے سودو زیاں کی بات کی ہے۔وہ کہتے ہیں:میرا تعلق ایک ایسی نسل سے ہے جو سربلند بھی ہے اور مجرم بھی۔ سربلند اس لیے کہ اس نے آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا اور پاکستان تخلیق کیا اور مجرم اس لیے کہ اپنی نااہلی کی وجہ سے مشرقی پاکستان گنوا دینے کا ’’اعزاز‘‘ حاصل کیا۔ ہماری ناپختگی کی یہ ایک روشن دلیل نہیں تو اور کیا ہے کہ 1971ء کے سانحہ کے صرف چھ سال بعد ملک ایک اور مارشل لا کے گڑھے میں دھکیل دیا گیا۔‘‘

یہ تو تھی ایک جنرل کے ایم عارف کے بارے میں سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ کی رائے   خود جنرل صا حب عدلیہ کے ججز کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھا یہ آپ کو خاکی سائے میں جسٹس صمدانی صاحب کے بارے میں جنرل کے ایم عارف کی رائے سن کر معلوم ہوگا

اگرچہ کے ایم عارف صا

Mar 11, 202315:23
دوسری ملاقات - تحریرعمرانہ مقصود اور انور مقصود

دوسری ملاقات - تحریرعمرانہ مقصود اور انور مقصود


یہ سچی کہانی ہے نظام حیدرآباد کی آنکھوں کے تارے حیدرآباد کے کمشنر نواب نثار یار جنگ کی اکلوتی بیٹی ے افسر عرف پاشی کی جس نے آنکھ کھولی تو باپ کے بڑے گھر کو ہمیشہ مہمانوں سے بھرا دیکھا۔ جہاں  تین افراد کے خدمت کے لئےبیس تیس مختلف عمر کے لوگ اس لیئے ملازم تھے کہ نواب صاحب کو نوکروں کی نہیں بلکہ ان نوکروں کو نوکری کہ ضرورت تھی  نواب نثار یار جنگ کی اکلوتی بیٹی پاشی کی شادی صرف 15 سال کی عمر می ایک دوری رشتہ دار قمر مقصود سے کردی جو اس وقت کالج میں طالب علم تھاوقت پلٹا اور حیدرآباد دکن کے حالات خراب ہوئے تو حیدرآباد کے نظام نے نواب نثار یار جنگ کو مشورہ دیا کہ آپ اپنے متعلقین کو لے کر پاکستان چلے جائیں یوں چالیس پینتالیس افراد کا قافلہ پانی کی جہاز سے خوابوں کی زمین پاکستان پہنچا۔ یہ اتفاق تھا کہ وہ دو اونٹ گاڑیاں تو جہاز سے سامان اتار کر منزل تک پہنچ گئیں جس پر کتابین لدی تھیں البتہ وہ تیسری اونٹ گاڑی راستے سے غائب ہو گئی جس پر گھر کا قیمتی سامان زیورات اور لڑکیوں کے جہیز لدے تھےنواب صاحب کی غیرت نے گوارہ نا کیا کسی متروکہ جائیداد پر قبضہ کرتے اور کلیم مین اپنے نام لکھواتے اس لیئے کھلے میدان میں خیمے لگا کر سب کے ساتھ مقیم ہوگئے نواب صاحب کا دسترخوان پھر سے وسیح ہوگیا اور حیدر آباد سے آئے لوگوں کے لیئے دیگوں میں کھانا پکنے لگا ۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ اتنا برسا ٹوٹ کے بادل کے خیمے اڑ گئے سارہ سامان بہہ گیا نواب صاحب کی اولاد پی آئی بی کالونی کے چھوٹے سے کرائے کے کورٹر میں منتقل ہو گئی جس میں نہ بجلی تھی نا پانی تھا ۔ پھر یوں ہوا کہ پاشی بیوہ ہو گئی اس کے شوہر جن سے دس اولادیں تھیں 42 سال کی عمر میں جہان فانی سے کوچ کرگئے پاشی نے اپنے بچوں کی ایسی تربیت کی کہ ان میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے میدان میں شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا اور یوں وہ گھر این خانہ تمام ہمہ آفتاب است کہ مثال بن گیا ان ہی میں سے ایک انور مقصود بھی تھے جنہین گھر کی دیواروں پر کوئلہ اور چاک سے تصویری بناتا دیکھ کر ان کے پڑوسی مشہور آرٹسٹ شاکر علی نے تصویر کشی میں ان کی لیاقت کو بھانپ کر حوصلہ افزائی کی۔ انور کے شوق کی تکمیل کے لیئے کاشی کی پرانی ساڑھیوں کا پھاڑ کر کینوس بنائے گئے کہ کاغذ خریدنے کے پیسے نا تھے یہ کہانی ہے انور مقصود کی جو لکھی ان کہ اہلیہ عمرانہ مقصود عرف عمو نے جنہوں نے بتایا کہ انور مقصود پاکستان میں اتنے ہی مقبول ہیں جیسے ہندوستان میں فلمی ستارے جہان سے گزرتے ہیں لوگ ان کے مداح انہیں گھیر لیتے ہیں مگر انور اپنے ساتھ کبھی کوئی گارڈ یا ڈارائور نہیں رکھتے ہیں ہمیشہ خود ہی چھوٹی سی گاڑی ڈرائیو کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جس کے شیشے پر ٹھک ٹھک سن کر وہ گاڑی کے شیشے اتار کر اپنے مداح سے مسکرا کر مصاحفہ کرتے ہیں ۔یہ کہانی ہے خود عمرانہ مقصود کی جسے اس بات پر فخر ہے کہ اس کے پاس جتنے سونے کے زیورات تھے وہ اپنی بہو اور بیٹی جو تحفے جو بچے وہ بیچ ڈالے اور اب محفلوں میں ہا چاندی کے ورنہ ،ذ،Artificial زیورات پہن کر جاتی ہےیہ کہانی ہے " دوسری ملاقات" کی جس میں۔ انور مقصود کے سوانح حیات بھی ہے اور عمرانہ مقصود اور انور مقصود کی کئی متفرق خوبصورت تحریریں بھی سن 2022 میں مکتبہ دانیال سے چھپنے والی 236 ,صفحات پر مشتمل یہ کتاب عام قاری کو 1200 روپے میں مہنگی لگے گی ۔ مگر !اس کتاب کو پڑھ کر جینے کا جو سلیقہ آتا ہے وہ انمول ہے یہ ان کتابوں میں۔ اے ایک ہے جسے گھر میں نئی روایت کا حصہ بننا چاہیئے کہ ہفتے میں ایک دن سب گھر والے ٹی وی انٹرنیٹ وائی فائی بند کرکے چند گھنٹے ایک ساتھ بیٹھیں چائے کی بھاپ اڑ رہی ہوں درمیان میں مونگ پھلیاں رکھی ہوں اور باری باری کوئی ایک اس کتاب کے اپنے پسندیدہ اوراق پڑھ کر سنائے باقی اسے شوق سے سنیں تاکہ۔بچوں کو معلوم تو ہو کہ زندگی ہے کیا اور اسے گزارہ کیسے جاتا ہے یہ وہ سبق ہیں جو نہ ہمیں کسی تعلیمی ادارے میں ملتے ہیں نا نصابی کتاب میں

Mar 10, 202314:16
ملاقات صادق قلاتی صاحب

ملاقات صادق قلاتی صاحب

ملاقات صادق قلاتی صاحب

Mar 06, 202319:02